بھارت کا جنگی جنون تھم نہ سکا، پنجاب اور سندھ کے مختلف علاقوں میں جاسوسی کے لیے آنے والے77 بھارتی ڈرونز کو پاک فوج نے مار گرایا جب کہ دھماکے بھی سنے گئے۔
بھارت کا جنگی جنون ایک سنگین حقیقت بن چکا ہے جو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالمی امن کے لیے بھی شدید خطرہ ہے۔ بھارت نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے درجنوں ڈرونز کے ذریعے حملہ کیا، جس کا پاکستان نے مؤثر انداز میں جواب دیتے ہوئے اپنی عسکری برتری کا لوہا منوایا ہے۔ پاکستان نے پہلے رافیل طیارے مار گرائے اور بھارتی ڈرونز کو دھول چٹا دی ہے۔ اس واقعے نے بھارت کی جارحانہ پالیسیوں اور اس کے جنگی جنون کو مزید عیاں کردیا ہے۔
دوسری جانب دنیا میں پاکستان ایئر ڈیفنس سسٹم مضبوط قرار دیا جا رہا ہے جب کہ اس نے بھارت کے زیر استعمال دنیا میں پہلی مرتبہ اسرائیلی ساختہ ڈرون کو مار گرایا ہے۔ پاکستان میں گرائے جانے والا ڈرون اسرائیلی ساختہ Heron MK 2 ہے جو 35 ہزار فٹ کی بلندی پر اڑتا ہے۔ اس ڈرون کو انٹی ائیر کرافٹ گن سے ٹارگٹ نہیں کیا جا سکتا، اس کا انجن برطانوی کمپنی UAV Engines LTD بناتی ہیں۔ پہلے ہی لائن آف کنٹرول پر بھی بھارت نے بھرپور نقصان اٹھایا ہے اور مزید اٹھانے جارہا ہے، پاکستان کے مختلف علاقوں سے اسرائیلی ساختہ ہیروپ ڈرونز کا ملبہ اٹھایا جا رہا ہے۔
پاکستان کی مسلح افواج نے ہمیشہ اپنی سرحدوں کی حفاظت اور قومی سلامتی کے لیے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ بھارتی جارحیت کے جواب میں اب پاکستان کے پاس اپنا دفاع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ پاکستان کبھی جنگ میں پہل نہیں کرے گا، لیکن اپنے عوام اور فوجی جوانوں کی جانوں کو بھارت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پاکستان مسلسل تحمل کا مظاہرہ کرتا آیا ہے، تاہم اب جواب دینے کی ضرورت پڑ گئی ہے یقینا پاکستان کی جانب سے بھرپور کارروائی کی جائے گی اور دنیا دیکھے گی کہ کیسا کرارا جواب آیا ہے۔
اس وقت مودی سرکار بھارت میں جنگی جنون کو بھڑکا رہی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کسی بھی ملک کی معیشت جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ مقبوضہ کشمیر میں نو لاکھ بھارتی فوجی موجود ہیں، تاہم ان میں سے کسی ایک میں بھی وطن کے لیے مرنے اور کٹنے کا جذبہ نہیں پایا جاتا۔ نوکری اور جہاد میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ یہ سب محض نوکری کر رہے ہیں۔ نوکری میں انسان اپنی جان داؤ پر نہیں لگاتا۔ لگاتا ہے تو سو مرتبہ سوچتا ہے۔ جہاد میں انسان شیرکی طرح لڑتا ہے۔ بھارتی فوجی کبھی بھی بہادری سے نہیں لڑ سکتے۔
بھارت کے جنگی جنون کا ایک اور پہلو اس کی میڈیا کی جھوٹی رپورٹنگ ہے۔ بھارتی میڈیا نے پاکستان کی جانب سے حملے کی جھوٹی اطلاعات پھیلائیں، جس سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ پاکستانی میڈیا نے ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان جھوٹوں کا پردہ فاش کیا اور عوام کو حقیقت سے آگاہ کیا۔
پاکستانی میڈیا نے جنگی جنون کو ہوا دینے کے بجائے امن کی ضرورت پر زور دیا، جس سے عوام میں تحمل اور بردباری کی فضا قائم ہوئی۔برصغیر کے دو بڑے ممالک، پاکستان اور بھارت، آزادی کے بعد سے آج تک کشیدگی، تنازعات اور بداعتمادی کے دائرے میں بندھے ہوئے ہیں۔ سات دہائیوں میں چار جنگیں، بے شمار سرحدی جھڑپیں اور سفارتی تناؤ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ دونوں ملکوں کی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ ان واقعات کا نتیجہ ہمیشہ ایک جیسا رہا۔
انسانی جانوں کا ضیاع، اقتصادی بربادی اور ایک مستقل خوف کی فضا۔ ان حقائق کے پیشِ نظر یہ سوال اب اور زیادہ اہم ہو گیا ہے کہ کیا اب بھی ہم ماضی کی زنجیروں میں جکڑے رہیں گے یا ایک نئے دور کی طرف قدم بڑھائیں گے، جہاں امن، ترقی اور تعاون کو ترجیح حاصل ہو؟ ماضی کی تلخیاں اپنی جگہ، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ مسائل کا حل جنگوں میں نہیں بلکہ مذاکرات میں پنہاں ہوتا ہے۔ ہر بار جب دونوں ممالک نے سنجیدہ بات چیت کی، حالات میں بہتری آئی۔ چاہے وہ واجپائی کا دور ہو یا جنرل مشرف کی امن کی کوششیں، مثبت اقدامات سے دونوں اطراف کے عوام کو سکھ کا سانس ملا۔ اگرچہ یہ کوششیں مختلف وجوہات کی بنا پر پائیدار ثابت نہ ہو سکیں، لیکن وہ یہ ضرور ثابت کرتی ہیں کہ امن ممکن ہے، اگر نیت درست ہو اور قیادت دلیرانہ فیصلے کرنے کی اہل ہو۔پاکستان اور بھارت دونوں ایسے ترقی پذیر ممالک ہیں جنھیں غربت، بے روزگاری، تعلیم کی کمی اور صحت جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔
ایسی صورت حال میں جنگ یا جنگی ماحول پالنا کسی بھی صورت عقلمندی نہیں۔ دفاعی اخراجات میں اربوں روپے صرف کرنے کے بجائے اگر یہی وسائل تعلیم، صحت، انفرا اسٹرکچر اور ٹیکنالوجی پر خرچ کیے جائیں تو دونوں ممالک میں ایک نیا ترقی یافتہ دور شروع ہو سکتا ہے۔ چین، یورپی یونین اور دیگر علاقائی اتحادوں کی مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اقتصادی تعاون دشمنی سے زیادہ پائیدار اور نفع بخش ہوتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان موجود مسائل جیسے کہ کشمیر، پانی کی تقسیم، سرحدی کشیدگی، اور دہشت گردی جیسے موضوعات بلاشبہ پیچیدہ ہیں، لیکن ان کا حل جنگ نہیں بلکہ سنجیدہ، مسلسل اور مخلصانہ مذاکرات میں ہے۔ یہ سچ ہے کہ کشمیر ایک حساس اور جذباتی مسئلہ ہے، لیکن دنیا کی جدید تاریخ میں ہم نے کئی ایسے پیچیدہ تنازعات کو پرامن طور پر حل ہوتے دیکھا ہے، اگر نیت ٹھیک ہو، اور عوامی مفاد کو ترجیح دی جائے تو ناممکن بھی ممکن ہو سکتا ہے۔
میڈیا کا کردار بھی ان تعلقات میں نہایت اہم ہے۔ بدقسمتی سے اکثر بھارتی میڈیا نفرت اور اشتعال انگیزی کو فروغ دیتا ہے، اور امن کے پیغام کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے۔ بھارتی میڈیا کو چاہیے کہ وہ ایک مثبت، حقیقت پسندانہ بیانیہ اختیار کرے، جس سے نہ صرف عوام میں شعور بیدار ہو بلکہ قیادت پر دباؤ بڑھے کہ وہ امن کی راہ اپنائے۔ میڈیا کا کام صرف خبریں دینا نہیں بلکہ سچ دکھانا اور معاشرے کی فکری رہنمائی کرنا بھی ہے۔ نوجوان نسل کو جذباتی نعروں سے باہر نکال کر شعور، فہم اور سوال اٹھانے کا ہنر سکھایا جائے، تاکہ وہ ماضی کی تلخیوں کے اسیر نہ بنیں بلکہ مستقبل کی روشنی کے متلاشی ہوں۔
عوام کی اکثریت چاہتی ہے کہ دونوں ممالک میں سکون ہو، تجارت ہو، ثقافتی روابط ہوں اور ایک دوسرے سے سیکھنے کا موقع ملے۔ قیادت کا کام محض بیانات دینا نہیں، بلکہ عوام کے لیے خوشحال مستقبل کی راہ ہموار کرنا ہے ۔ ملکی قیادت کو چاہیے کہ وہ دور اندیشی کا مظاہرہ کرے، اورایسی پالیسی اپنائے جو ملک کو ترقی کی جانب لے کر جائے۔بھارتی حکومت پر جنگ کا جنون سوار ہے لیکن اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ سے فائدہ نہیں نقصان ہی نقصان ہوگا اور جو تباہی پھیلے گی دہائیوں تک اس کا ازالہ نہیں ہو سکے گا۔
موجودہ عالمی حالات یہی تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت اپنے باہمی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر، خطے کے امن، ترقی اور خوشحالی کے لیے مل کر کام کریں۔ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں وہی قومیں کامیاب ہیں جو معاشی طاقت بنتی، تعلیمی میدان میں ترقی کرتی اور اپنے عوام کو بہتر زندگی فراہم کرتی ہیں۔حرف آخر جنگ ہمیشہ تباہی لاتی ہے، اور امن ہمیشہ زندگی۔ اگر دونوں ممالک ماضی کی تلخیوں کو چھوڑ کر مستقبل کی روشنی کی طرف بڑھیں، تو یہ نہ صرف عوام کی فتح ہو گی بلکہ انسانیت کی جیت بھی۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم دشمنی کو دفن کریں اور ایک ایسا ماحول پیدا کریں جہاں ہمارے بچے بم کی آوازوں کے بجائے امن، ترقی اور خوشی کی باتیں سنیں۔بھارتی حکومت میں موجود کچھ شرپسند اور انتہاپسند عناصر دونوں ممالک کے درمیان نفرت اور کشیدگی کو بڑھا کر اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستان اور بھارت کا مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ضروری ہے۔ مذاکرات کے ذریعے دونوں ممالک اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں اور خطے میں امن قائم کر سکتے ہیں۔
پاکستانی حکومت بھارتی جارحیت کے مقابلے میں صبر اور تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے کیوں کہ وہ جانتی ہے کہ جنگ تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں لاتی۔ یہ نہ صرف عوام کی زندگیوں کو متاثر کرتی بلکہ پورے خطے کی ترقی اور خوشحالی کو بھی روک دیتی ہے۔ اس لیے جنگ کے بجائے امن کی بات کرنی چاہیے، امن ہی عوام کی فلاح و بقا کا ضامن ہے۔