سہروردی خاندان کی عورتوں سے میرا تعارف بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔ وہ ماہنامہ ’’عصمت‘‘ میں لکھتی تھیں اور ان کی تصویریں عصمت کے گولڈن جوبلی نمبر میں شایع ہوئی تھیں اور خجستہ سہروردی اور شائستہ سہروردی کے نام اور تصویریں میرے لیے یوں تھیں جیسے گھرکی خواتین کی تصویریں اور جب ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور میں نے اپنی بیٹیوں کو بھی ان سے ملوایا تو یہی کہہ کرکہ یہ ہماری روایات اور اقدار کی مجسم تصویر ہیں۔
’’ پردے سے پارلیمنٹ تک‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جو 1915 سے شروع ہوتی ہے اور پھر چلتی ہی چلی جاتی ہے۔ انھوں نے اپنے اس تذکرے میں 1915 سے بات شروع کی ہے۔ یہ ایک پرانے مکان کی کہانی ہے جس میں شائستہ سہروردی پیدا ہوئیں، وہ 8 برس کی تھیں تو یہ گھر فروخت ہوگیا، لیکن ان کا کہنا تھا کہ میں اس گھر میں آتی جاتی رہتی تھی اور مجھے اس کا ایک ایک کمرہ یاد ہے۔
اس گھر کے دالان میں ایک بڑا تخت بچھا رہتا تھا جس پر خاندان کی بڑی بوڑھیوں کا بڑا پاندان رکھا رہتا تھا۔ یہ جگہ ایک طرح سودا سلف لانے والیوں کا مرکز ہوتا تھا۔ وہ یہاں ہر قسم کی چوڑیاں، ریشمی کپڑے اور سرمے دانیاں لے کر آجاتی تھیں اور ہاتھ کے ہاتھ سودا طے ہو جاتا تھا۔ اس طرح پردے کا بھرم بھی رہ جاتا تھا اور بیویوں کو اپنی پسند کی چیزیں بھی مل جاتی تھیں۔
شائستہ صاحبہ نے اس زمانے کی بود و باش کا بہت اچھا نقشہ کھینچا ہے۔ وہ ابھی پڑھ رہی تھیں کہ ان کی شادی کی باتیں شروع ہوگئیں اور آخرکار 18 برس کی عمر میں اکرام اللہ صاحب برات لے کر کلکتہ آن پہنچے۔ اکرام اللہ صاحب آئی سی ایس افسر تھے۔ اس زمانے میں ہندوستانی شاذ و نادر ہی اس سروس میں آتے تھے۔ وہ ہندوستان کا وہ دور تھا جب آئی سی ایس افسران میں دیانت داری کا یہ عالم تھا کہ کئی سو برسوں میں ایک یا دو افسران بددیانتی کے مرتکب ہوئے تھے۔ شائستہ کو اس بات کا اطمینان دلایا گیا تھا کہ وہ ایک شریف اور دیانت دار افسرکی بیوی بن کر جا رہی ہیں۔
شائستہ سہروردی بنگال کے ایک نامی گرامی خاندان کی بیٹی تھیں۔ ان کے لیے خاندان اور بہ طور خاص والدہ سے جدائی بہت شاک گزر رہی تھی، لیکن جب ان کی والدہ اور پھوپھیوں نے انھیں سمجھایا تب کہیں ان کا رونا بند ہوا۔ اکرام اللہ صاحب کے ساتھ جب وہ رخصت ہوئیں تو لوگوں نے انھیں سر آنکھوں پر بٹھایا اور ان دونوں کی جوڑی ہندوستانی مسلم سیاست میں بہت مقبول ہوئی۔ انھوں نے اپنی خود نوشت کی ابتدا ہی میں لکھا ہے ’’مجھے اکثر ایسا محسوس ہوتا کہ میں تین مختلف ادوار سے گزر رہی ہوں۔ میری پیدائش کے وقت تک مغل تمدن کے آثار برصغیر سے بالکل نہیں مٹے تھے۔ میرا بچپن برطانیہ عظمیٰ کی شہنشاہیت کا زمانہ تھا اور جب میں نے ہوش سنبھالا تو آزادی کی جدوجہد شروع ہو چکی تھی۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میں اس جدوجہد میں شامل رہی اور اس کو زور پکڑتے دیکھا۔‘‘
ان کی مغربی سہیلیاں اکثر ان سے شادی اور رسم و رواج کے بارے میں پوچھتی تھیں تو وہ برصغیر اور انگلستان میں مشہور مسز سروجنی نائیڈو کے مخصوص انداز میں کہتیں کہ ’’ ہمارے یہاں غیر شادی شدہ عورتوں کا کوئی مسئلہ نہیں۔ وہ شادی شدہ ہی پیدا ہوتی ہیں۔‘‘ ان کی ملاقات پہلی مرتبہ مسز نائیڈو سے اپنی پھوپھی کے گھر ہوئی اور رفتہ رفتہ بڑھتی گئی۔ وہ ان کی بہت شائق تھیں اور سروجنی نائیڈو صاحبہ ان پر مہربان۔ وہ جب بھی دلّی آتیں اور لالا سری رام کے گھر ٹھہرتیں تو شائستہ کو اطلاع کروا دیتیں۔
شائستہ ان سے ملنے جاتیں اور دونوں بچھڑی ہوئی سہیلیوں کی طرح ایک دوسرے سے باتیں کرتیں۔ سروجنی صاحبہ کو مرغن اور چٹ پٹے کھانوں کا شوق تھا، وہ اپنے میزبانوں سے فرمائش کرتیں اور جب وہ اپنی پسند بتاتیں تو ان کے میزبان یہ کہتے کہ یہ کھانے آپ کی صحت کے لیے مضر ہیں تو ہنس کر کہتیں کہ جن ڈاکٹروں نے مجھے ان کھانوں سے پرہیز بتایا تھا وہ اب سے تین چار برس پہلے پرلوک سدھار چکے ہیں اور میں موجود ہوں۔ ان کی حسِ ظرافت سننے والوں کو لطف دیتی تھی اور یہی باتیں تھیں کہ جن کو شائستہ صاحبہ نے سروجنی نائیڈو کا گرویدہ بنا دیا تھا۔
انھوں نے فروری 1932 کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا ہے جب وہ اپنے والد کو خطاب ملنے کے موقع پر دلی کے وائسرائے محل میں گئی تھیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ آج بھی وہ شام مجھے ایک زریں خواب کی مانند معلوم ہوتی ہے اور جی چاہتا ہے کہ اس کی یاد تازہ کروں۔ میرے والد کوکلکتہ یونیورسٹی کی تقریبِ اسناد کے موقع پرگورنر کی جان بچانے کے صلے میں ’’ سر‘‘ کا خطاب ملا تھا۔
میں اپنے ابا کے ساتھ پردے کی پوری پابندی کے ساتھ جا رہی تھی۔ میرے ساتھ تین عورتیں تھیں، ایک میرے ابا کی سیکریٹری، ایک جرمن پروفیسر اور ایک انگریزی اخبارکے ایڈیٹر کی لڑکی جو میری دوست تھی اور مشہور انگریزی شاعر ورڈز ورتھ کے خاندان سے تھی۔ اس کے باوجود خاندان میں تہلکہ مچ گیا کہ کتنی بری بات ہے کہ لڑکی اس طرح ’ اکیلی‘ جا رہی ہے۔ ان کے والد کو اس بات کا احساس تھا کہ گھر پر کس قسم کا طوفان اٹھ رہا ہے۔ اسی لیے انھوں نے وائسرائے ہال میں پہنچتے ہی ایک اے ڈی سی سے کہا کہ ’’ میری بیٹی کو خواتین کے ساتھ بٹھایا جائے۔‘‘ اے ڈی سی نے انھیں خواتین کے قریب ایک کرسی پر بٹھایا اور پھر غائب ہوگیا۔
وہ اِدھر اُدھر دیکھتی رہیں اور انھیں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ پرستان میں ہیں۔ اچانک ایک ہلکی سی جھنکار ہوئی۔ انھوں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ڈائس کے دونوں طرف بیٹھنے کی جو جگہ تھی وہ یکدم سے ان کی گزشتہ شان و شوکت کی تصویر بن گئی۔ شائستہ نے لکھا ہے کہ ہمارے راجے مہاراجے، نواب اور رئیس زرق برق کپڑوں میں ملبوس، سرپر زریں پگڑیاں باندھے ہیرے اور موتیوں کی کلغیاں لگائے گلے میں موتیوں کی مالائیں ڈالے اور تمغے سجائے کھڑے تھے۔ اس منظرکو دیکھ کر شائستہ کس طرح پرانے دور میں پہنچ گئیں۔ انھیں یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ مغل بادشاہت کا دور دیکھ رہی ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد وائسرائے اور لیڈی ولنگڈن آتے ہوئے نظر آئے۔
دونوں دھیرے دھیرے چلتے ہوئے اسٹیج تک آئے اور آکر سنہری کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ بالکل تصویر کا سماں معلوم ہوتا تھا۔ شائستہ کہتی ہیں کہ ’’ جب میرے والد اور چچا کے نام بھی پکارے گئے تو میرا دل خوشی سے جھوم گیا۔ میرے والد اور چچا کا نام پکارا گیا تو وہ آہستہ آہستہ وائسرائے کے سامنے آئے جہاں ایک مخملی کشن رکھا تھا۔ وائسرائے نے ایک لمبی چمکتی تلوار سے ان دونوں کے کاندھے ہلکے سے چھوئے اور ان کے نام کے ساتھ ’ سر‘ کے خطاب کا اضافہ کیا۔ اس کے چند برسوں بعد وقت نے پلٹا کھایا اور اور یہ سارے خطابات اور اعزازات طاقِ نسیاں پر رکھ دیے گئے۔
(جاری ہے)