سردار اختر جان مینگل قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوئے اور پھر بے لچک مؤقف اختیار کیا تو ان کے والد گرامی کی یاد ائی۔ سردار عطا اللہ مینگل سے مجھے دو یا تین انٹرویو کرنے کا موقع ملا ہے۔ ان سے پہلا انٹرویو گلشن اقبال کراچی کے ایک گھر میں ہوا، اس موقع پر برادر عزیز رفعت سعید بھی میرے ساتھ تھے۔ دوسرا انٹرویو ان کے گزری کے بنگلے میں ایک ٹیلی ویژن چینل کے لیے کیا۔
سردار صاحب مرحوم سے پہلے انٹرویو کا باعث ان کی ایک گفتگو بنی جو انھوں نے 1995-96 میں کراچی پریس کلب کے میٹ دی پریس میں کی تھی۔ اپنی گفتگو میں انھوں نے پاکستان کے انتہائی تاریک مستقبل کی پیشین گوئی کی۔ انھوں نے اعداد و شمار کے ساتھ بتایا کہ یہ ملک اقتصادی اعتبار سے چلنے کی سکت نہیں رکھتا۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں ایک طرف مایوسی پر مبنی یہ تصویر پیش کی تو دوسری طرف اپنی سیاسی حکمت عملی کے بارے میں بھی کچھ اشارے دیے۔مجھے حیرت تھی کہ پاکستان سے مایوسی کے باوجود وہ سیاست میں حصے کے خواہش مند بھی ہیں۔ ان کی اسی حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ آئندہ انتخابات میں ان کی بلوچستان نیشنل پارٹی صوبے کی بڑی جماعت کے طور پر ابھری اور سردار اختر جان مینگل وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
سردار صاحب مرحوم سے انٹرویو کا سبب ان کی گفتگو میں پائی جانے والی یہی دلچسپ صورت حال تھی لیکن وہ سردار صاحب ہی کیا جو آسانی کے ساتھ قابو آ جائیں۔ ہمارے صحافی دوستوں کا معاملہ بڑا دلچسپ ہے۔ وہ جب سیاست دانوں سے انٹرویو کرتے ہیں تو سامنے کی چند باتوں اور ہم عصر سیاست دانوں کے بیانات پر ردعمل لے کر سمجھتے ہیں کہ انٹرویو ہو گیا لیکن بلوچ سرداروں خاص طور پر سردار عطا اللہ مینگل کا معاملہ اتنا آسان کبھی نہ تھا۔ وہ کسی جونیئر صحافی کو بھی انٹرویو دینے سے کبھی انکار نہ کرتے۔ شفقت سے ملتے۔ ہر سوال کا جواب دیتے لیکن ان کے جوابات سوال کرنے والے کی سمجھ میں بھی آسانی کے ساتھ آ جاتے؟ اس کی ضمانت نہیں دی جا سکتی تھی۔
سردار صاحب کی گفتگو قومی تاریخ کے نادر گوشوں، صورت حال کے بین الاقوامی تناظر اور ان دونوں کی روشنی میں پیچیدہ تجزیے پر مشتمل ہوتی۔ انھوں نے میرے سوالات کا جواب بلا تکلف دیا لیکن ان جوابات کو سمجھنے میں کچھ دیر لگی۔ ‘بلوچستان ٹائمز’ صوبے کا ایک اہم اخبار ہے۔ صدیق بلوچ مرحوم اس کے مدیر اعلیٰ تھے۔صدیق بلوچ نرے صحافی نہ تھے، صاحب بصیرت دانش ور بھی تھے۔ کراچی پریس کلب میں ان کے ساتھ ایک بے تکلف نشست میں؛ میں نے ان سے درخواست کی کہ براہ کرم وہ بلوچ سرداروں کی گفتگو کو سمجھنے کا گر مجھے سکھا دیں۔ صدیق بلوچ نے فلک شگاف قہقہہ لگایا اور پوچھا کہ کہیں سردار عطا اللہ مینگل سے ٹاکرا تو نہیں ہو گیا؟ میرے اثبات پر ان کی ہنسی دیوچند ہو گئی۔ کہنے لگے کہ ہمارے بزرگوں کے ساتھ بات چیت خالہ جی کا گھر نہیں۔ عرض کیا کہ یہ حقیقت تو میں بہ خوبی جان چکا لیکن سے سمجھنے کی کلید بھی تو عطا ہو۔
صدیق بلوچ کا کہنا تھا کہ صحافی لوگ مینگل صاحب یا ان جیسا لب و لہجہ رکھنے والے بلوچ سرداروں سے یہ فرض کر کے بات کرتے ہیں کہ یہ مایوس لوگ ہیں اور پاکستان کے مخالف ہیں، وغیرہ۔ یوں وہ آسانی کے ساتھ بھٹک جاتے ہیں اور بات کی تہہ تک کبھی پہنچ نہیں پاتے۔ ان بزرگوں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ان کے اسلوب کو سمجھا جائے۔ یہ بزرگ اپنے دشوار گزار خطے کی طرح خود بھی کوئی آسان لوگ نہیں۔ یہ لوگ بے انتہا پڑھے لکھے اور غیر معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے ہوتے ہیں۔ وہ دو اور دو چار کی طرح گفتگو نہیں کرتے۔ ان کا دو اور دو چار نہیں، آٹھ، دس بلکہ سو بھی ہو سکتا ہے۔ کیسے؟ یہ کلیہ ان کی مزاج شناسی کے بغیر کبھی سمجھ میں نہیں آ سکتا۔
‘ پھر مزاج شناسی کیسے ممکن ہے؟’
میرے اس سوال پر انھوں نے کہا کہ سب سے پہلے بلوچ سرداروں اور قائدین کے بارے میں اپنی رائے درست کی جائے۔ یعنی یہ سمجھنے سے گریز کیا جائے کہ وہ مایوسی کی انتہاؤں میں ڈوبے ہوئے لوگ ہیں اور دوسرے انھیں پاکستان دشمن سمجھنے کی غلطی کبھی نہ جائے۔ یہ فہم اگر کسی میں پیدا ہو جائے تو یقین کامل ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ بھی اس کی سمجھ میں آ جائے گا اور بلوچستان والے بھی۔
بلوچستان کے بزرگوں کو سمجھنے کا دوسرا اصول بھی دلچسپ ہے۔ جب یہ سمجھ لیا جائے کہ وہ پاکستان مخالف نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا ورلڈ ویو شاندار ہے وہ کسی سے بھی بڑھ کر جانتے ہیں کہ آزاد بلوچستان کا کوئی مستقبل نہیں۔ اگر خدا نخواستہ ایسا کوئی حادثہ ہوتا بھی ہے تو ایسا بلوچستان عالمی طاقتوں کا مہرہ تو ضرور بن سکتا ہے لیکن اس کا کوئی ثمر بلوچستان اور اس کے عوام کو کبھی ملنے والا نہیں۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ بلوچستان پاکستان ہی میں شامل رہے لیکن پاکستان میں ان کے ساتھ آبرو مندانہ معاملہ کیا جائے۔ یوں پہلی بار میری سمجھ میں آیا کہ بلوچ قیادت جب بلوچستان کے لیے کالونی جیسے الفاظ استعمال کرتی ہے تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔
اب سردار اختر جان مینگل نے بھی قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیتے وقت ایسا لب و لہجہ ہی اختیار کیا ہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ اختر مینگل بلوچستان میں ابھرنے والی نئی تحریکوں سے پریشان ہیں اور خوف محسوس کرتے ہیں کہ یہ نئی لہر سندھ کے شہری علاقوں کی ایم کیو ایم کی طرح بلوچستان کی سیاسی قوتوں کو بہا کر لے جائے گی۔ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں۔ وہ بہ خوبی جانتے ہیں کہ جیسے ایک روز ایم کیو ایم تاریخ کا حصہ بن گئی، اسی طرح نئے چہرے بھی ماضی کا قصہ بن جائیں گے لیکن اس عرصے میں بلوچستان کے مسائل مزید پیچیدہ ہو جائیں گے۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ مزید تجربات کرنے کے بہ جائے درست طریقہ اختیار کیا جائے اور معاملات صوبے کے منتخب اور حقیقی نمائندوں کے سپرد کر دیے جائیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس سے مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں پردہ اٹھایا ہے۔ پاکستان میں اس وقت صرف دو ہی شخصیات ہیں جو بلوچستان کی الجھی ہوئی ڈور کو سلجھا سکتی ہیں۔ ان میں ایک میاں محمد نواز شریف ہیں اور دوسرے آصف علی زرداری۔ یہ دونوں بزرگ مسئلے کی پیچیدگی کو بھی سمجھتے ہیں اور بلوچ قیادت بھی ان پر اعتبار کرتی ہے۔ باقی سب بھی اعتبار کر لیں تو اس میں ہم سب کا بھلا ہے۔