بلوچستان کے موجودہ حالات سمجھنے کے لیے ہمیں 1971میں جانا پڑے گا‘ 1971میں پاکستان دو حصوں میں تقسیم تھا‘ مغربی پاکستان موجودہ پاکستانی علاقوں پر مشتمل تھا جب کہ آج کا بنگلہ دیش مشرقی پاکستان تھا‘ پاکستان کے دونوںحصوں کے درمیان بھارت تھا‘ دوسرا بھارت نے تقریباً تین سائیڈ سے مشرقی پاکستان کو گھیر رکھا تھا‘ اندرا گاندھی نے شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ سیاسی تعلقات بڑھائے‘ مکتی باہنی بنوائی‘ مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی اسٹارٹ کرائی اور آخر میں اپنی فوجیں بھجوا کر پاکستان توڑ دیا‘یہ پاکستان اور پاک فوج کے دل پر بہت بڑا اور گہرا زخم تھا‘ جنرل ضیاء الحق نے 1980کی دہائی میں اس چوٹ کا بدلہ لینا شروع کر دیا۔
انھوں نے سکھ علیحدگی پسندوں کو سپورٹ کیا اور مشرقی پنجاب میں خالصتان کی تحریک شروع ہو گئی‘ تحریک کا پیٹرن بنگلہ دیش جیسا تھا‘ جنرل ضیاء الحق نے اندرا گاندھی کو یقین دلا دیا تھا آپ نے جس طرح 1971 میں پاکستان توڑا بالکل اسی طرح ہم خالصتان بنا کر بھارت توڑ دیں گے‘ اندرا گاندھی کو یہ بھی باور کرا دیا گیا اگر بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن اور پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نہیں بچے تو بھارت میں تم بھی نہیں بچو گی چناں چہ اگر آپ 1980 اور 1990کی دہائی کے بھارت کا مطالعہ کریں تو آپ کو پورا ہندوستان جلتا‘ ٹوٹتا اور بکھرتا نظر آئے گا اور یہ اس وقت کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا بنگلہ دیش کا جواب تھا اگر جنرل ضیاء الحق کوچند سال مزید مل جاتے تو خالصتان بھی بن جاتا اور انڈیا بھی ٹوٹ کر بکھر چکا ہوتا لیکن بھارت کی قسمت اچھی تھی جنرل ضیاء الحق دنیا سے رخصت ہو گئے اور پاکستان میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو گئی۔
اس دوران امریکا بھی افغانستان سے چلا گیا اوریہ ملبہ بھی پاکستان پر گر گیا چناں چہ پاکستان بھارت پر زیادہ توجہ نہ دے سکا تاہم یہ حقیقت ہے جنرل پرویز مشرف کے زمانے تک پاکستان نے کسی نہ کسی حد تک بھارت کو مصروف رکھا تھا لیکن پھر نائین الیون ہو گیا اور پاکستان امریکا کے دباؤ میں آ گیا‘ جنرل مشرف نے اس دباؤ میں ایک بڑی غلطی کر دی‘ انھوں نے انڈیا اور مقبوضہ کشمیرکے تمام آپریشنز بند کر دیے‘ پاکستان کو اس کے دو بڑے نقصان ہوئے‘ بھارت بے خوف ہو گیا کیوں کہ اس سے قبل کسی بھی قسم کی گڑ بڑ کے بعد پاکستان بھارت میں اس کا جواب دیتا تھا اور اس سے انڈیا کی معیشت اور ساکھ کو ٹھیک ٹھاک نقصان پہنچتا تھا‘ جنرل مشرف کے دور میں جواب دینے کا یہ سلسلہ رک گیااور بھارت کو پاکستان میں یک طرفہ کارروائیوں کا موقع مل گیا‘ دوسرا چانکیہ نے ارتھ شاستر میں دوہزارتین سو سال قبل بھارتی راجاؤں کو بڑے کام کی بات بتائی تھی۔
دشمن کا دشمن دوست اور ہمسائے کا ہمسایہ دشمن ہوتا ہے‘ یہ ’’سنہری اصول‘‘ بھارت کی وزارت خارجہ کی مین فلاسفی ہے چناں چہ انڈیا نے افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کر دیا‘ حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور میں افغانستان میں بھارت کے 28 مشنز اور دفاتر تھے‘ ان میں را کے افسر بھرے تھے‘ ہمارے تعلقات اس زمانے میں ایران کے ساتھ بھی اچھے نہیں تھے‘ بھارت نے اس کا فائدہ اٹھایا اورچاہ بہار‘ بندر عباس اور تفتان میں اپنے ٹھکانے بنا لیے‘ یہ لوگ وہاں سے دو کام کر رہے تھے‘ ایک یہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں دھماکے کرتے تھے اور دوسرا انھوں نے بلوچستان میں علیحدگی پسندی کا رجحان پروان چڑھانا شروع کر دیا‘ را نے افغانستان اور ایران کے ذریعے دہشت گرد تنظیموں کو رقم بھی دی‘ ٹریننگ بھی اور ٹیکنالوجی بھی‘ اس سے پاکستان کے حالات خراب ہوتے چلے گئے۔
2007-08 میں ٹی ٹی پی بنی تو بھارت نے اسے ہاتھوں ہاتھ لے لیا اور اس نے کے پی کے بڑے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور وہاں عملاً اسٹیٹ کی رٹ ختم ہو گئی ‘ مولانا فضل الرحمن نے اس زمانے میں قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر دعویٰ کیا تھا دہشت گرد اسلام آباد سے چند کلو میٹر دور رہ گئے ہیں‘ بہرحال 2007سے 2013 تک جنرل کیانی کے دور میں آپریشن زلزلہ‘ آپریشن صراط مستقیم‘ آپریشن شیردل‘آپریشن بلیک تھنڈر اسٹارم‘آپریشن راہ راست اور آپریشن راہ نجات جیسے آپریشن ہوئے اور پاکستان نے دہشت گردوں کے تمام ٹھکانے ختم کر کے رٹ بحال کر دی‘ بلوچستان میں بھی بڑی حد تک حالات ٹھیک کر دیے گئے‘ حالات کی اس درستگی میں میاں نواز شریف کا بھی بہت ہاتھ تھا‘ میاں صاحب کے بی جے پی کی قیادت یعنی اٹل بہاری واجپائی اور بعدازاں نریندر مودی سے بہت اچھے تعلقات تھے‘ انھوں نے دونوں کو راضی کر لیا اور یوں پاکستان میں دہشت گردی کے بھارتی پروجیکٹس رک گئے۔
ہم قصے کو مزید مختصر کرتے ہیں‘ عمران خان کی آمد کے ساتھ پاکستان کے سیاسی اور داخلی حالات خراب ہو گئے‘ بھارت ان حالات کی بنیاد پر یہ سمجھ بیٹھا پاکستان میں جان ختم ہو گئی چناں چہ اس نے 26 فروری 2019 کو بالاکوٹ میں سرجیکل آپریشن کر دیا‘ پاکستان نے 24 گھنٹوں میں جواب دیا اور بھارت کے تین طیارے گرا دیے‘ ایک طیارے کا ملبہ پاکستان میں گرا اور اس کا پائلٹ ابھے نندن گرفتار ہو گیا جس کے بعد وہ بھارت جو خود کو مستقبل کی سپر پاور سمجھتا تھا اس کی پوری دنیا کے سامنے دھوتی کھل گئی‘ بھارت اعلان جنگ نہیں کر سکا کیوں کہ اسے دنیا کے کسی ملک سے سپورٹ نہیں ملی اور دوسرا اسے مس ایڈونچر کی وجہ سے ایٹمی جنگ کا خطرہ تھا تاہم یہ اپنی چوٹ بھلا نہ سکا لہٰذا اس نے کے پی اور بلوچستان میں اپنی کارروائیاں تیز کر دیں۔
را نے سوشل میڈیا کے ذریعے بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کرنا شروع کر دیا‘ بلوچستان میں نوکریاں اور انفرااسٹرکچر کم زور ہے اور اس کے ذمے دار کرپٹ بلوچ سردار ہیں‘ انھوں نے اپنے عوام پر پیسہ خرچ نہیںکیا تھا‘ بلوچستان میں تعلیم بالخصوص خواتین میں تعلیم کا رجحان بڑھ گیا تھا مگر نوجوانوں کے لیے نوکریاں نہیں تھیں جس کی وجہ سے نوجوان ریاست کے ساتھ ناراض تھے‘ بھارت نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس ناراضگی کو فوج‘ وفاق اور پنجاب سے نفرت میں تبدیل کر دیا‘ دنیا کی تمام بڑی سوشل میڈیا ایپس کے سی ای اوز بھارتی ہیں‘ مشرق وسطیٰ کے چیپٹرز بھارت سے آپریٹ ہوتے ہیں یا پھر سنگا پور سے اور ان میں بھارتی بیٹھے ہیں‘ انھوں نے ناراض بلوچ نوجوانوں اور خواتین کو ہیرو بنانا شروع کر دیا‘یہ جو بھی ریاست مخالف وڈیو بناتی تھیں سوشل میڈیا پر اسے بوسٹ مل جاتا تھا اور بلوچ خواتین دنوں میں مشہور ہو جاتی تھیں‘ ماہ رنگ بلوچ اس کی بہت بڑی مثال ہے۔
یہ عین جوانی میں بین الاقوامی شخصیت بن گئی‘ دوسری سائیڈ پر بھارت نے نوجوانوں کو عسکری ٹریننگ دینا شروع کر دی‘ انھیں بھارت بھی لے جایا گیا‘ انھیں بھارتی پاسپورٹ بھی دیے گئے اور رقم بھی‘ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد بھارت نے طالبان کا ایک بڑا اور بااثر گروپ اپنے ہاتھ میں لے لیا‘ اس گروپ کی مدد سے افغانستان میں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے ٹریننگ کیمپس اور ٹھکانے بنا دیے گئے‘ یہ کتنا بڑا پروجیکٹ ہے آپ اس کا اندازہ صرف بی ایل اے کی فنڈنگ سے لگا لیجیے‘ بھارت ہر سال بی ایل اے کو ایک ارب ڈالر (280 ارب روپے) دیتا ہے‘ اسلحہ‘ ٹریننگ اور سیٹلائیٹ سپورٹ اس کے علاوہ ہے‘ دوسری طرف ٹی ٹی پی کو بھی رقم اورٹریننگ دی جارہی ہے‘ اسلحہ انھیں افغان حکومت سے مل جاتا ہے‘ را ان کے ساتھ نقشے اور ملک کے حساس علاقوں کی تفصیلات بھی شیئر کرتا ہے۔
آپ خود سوچیے بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کے لوگ افغانستان اور بلوچستان کے پہاڑوں میں بیٹھے ہیں اور یہ بہت زیادہ پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگ نہیں ہیں لہٰذا یہ جعفر ایکسپریس کی موومنٹ کے بارے میں کیسے جان جاتے ہیں؟ انھیں کیسے پتا چلتا ہے درہ بولان کی کس پوزیشن پر ٹرین کا سینٹرل سسٹم سے رابطہ ختم جاتا ہے یا موبائل فون سگنلز مکمل طور پر ختم ہو جاتے ہیں اور کون کون سا ایسا پوائنٹ ہے جہاں فوج اور سیکیورٹی ادارے فوری طور پر نہیں پہنچ سکتے اور ٹرین کے ذریعے کتنے فوجی چھٹیوں پر جا رہے ہیں‘ فوج آپریشن کے دوران کہاں پہنچ چکی ہے اور دہشت گردوں کو کس وقت ٹرین سے نکل کر غائب ہو جانا چاہیے اور پہاڑوں میں کس مقام پر پناہ لینی ہے؟ وغیرہ وغیرہ‘ دوسرا بنوں کینٹ سیکیورٹی سسٹم میں کس کس وقت تبدیلی آتی ہے۔
کس وقت کس پولیس اسٹیشن میں ڈیوٹی بدلتی ہے اور کون کس وقت تھانے سے غائب ہوتا ہے اور کس وقت کس مقام سے کون سا سیکیورٹی قافلہ یا گاڑی گزرے گی ؟یہ معلومات کسی بڑے ملک اور سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کے بغیر ممکن نہیں ہیں اور اس کے پیچھے را اور بھارت ہے ورنہ ٹی ٹی پی کے ساڑھے سات ہزار اور بی ایل اے کے 16 ہزار لوگ پاکستان جیسی ایٹمی طاقت کو کیسے نقصان پہنچا سکتے ہیں‘ یہ بھارت ہے اور اس کے دو مقصد ہیں‘ یہ پاکستان کو کم زور کرنا چاہتا ہے‘ یہ معاشی لحاظ سے مضبوط اور پرامن پاکستان افورڈ نہیں کر سکتا اور دوسرا یہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ملک کے اندرونی مسائل میں الجھائے رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس کی توجہ بھارت کی طرف مبذول نہ ہو سکے اور یہ کشمیر پر توجہ نہ دے سکیں۔
ہم اب آتے ہیں حل کی طرف۔ ہمارے پاس صرف تین حل ہیں‘ ہم ایک بار اکٹھے بیٹھ کر پالیسی بنائیں اور پاکستان میں موجود دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کی تمام فیکٹریاں بند کر دیں‘ ہمیں اس کے لیے جو بھی کرنا پڑے ہمیں وہ کر گزرنا چاہیے ورنہ یہ چھوٹے چھوٹے زخم ہمیں قبر تک لے جائیں گے اور دوسرا ہمیں پوری دنیا کو یہ پیغام دینا ہو گا پاکستان ایک ’’ہارڈ اسٹیٹ‘‘ہے‘ آپ اگر اسے چھیڑیں گے تو یہ آپ کو نہیں چھوڑے گا بالخصوص یہ پیغام افغانستان کو ضرور جانا چاہیے۔
ہم نے 45 برسوں میں افغانستان کے لیے کیا کیا نہیں کیا لیکن اس کے جواب میں ہمیں کیا ملا؟ ہمیں افغانستان کو اب یہ بتانا ہوگا افغانستان سے اگر بی ایل اے اور ٹی ٹی پی آپریٹ ہو رہی ہیں تو پھر یہ ٹھکانے ختم کرنا ہوںگے ورنہ ہمارا نقصان بڑھتا رہے گا اور تیسرا امریکا کو درمیان میں ڈال کر ہمیں بھارت کو افغانستان سے نکالنا ہو گا‘ امریکا بھی بری طرح تھک چکا ہے لہٰذا ہم اگر اسے افغانستان کا کوئی ٹھوس حل دیں تو یہ قبول کر لے گا اور ہمیں یہ موقع ضایع نہیں کرنا چاہیے‘ پاکستان پھر ہی بچ سکے گا ورنہ حالات ہمارے ہاتھ سے تقریباً نکل چکے ہیں۔