سپریم کورٹ کے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے بارے میں ایک انتہا پسند گروپ کے عہدے دار غیر قانونی بیان جاری کیا‘ اس کے خلاف حکومت کا اقدام کسی حد تک اطمینان کا باعث ہے۔ اس کے ساتھ ہی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں، وکلاء تنظیموں اور سول سوسائٹی کو جسٹس فائز عیسیٰ سے یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے۔ .
اگرچہ وکلاء کی وفاق کی سطح پر نمایندہ تنظیموں پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے تو اس دھمکی کی مذمت کی مگر ملک کی دیگر بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے اس معاملے پر خاموشی اختیار کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتہا پسندی کے اثرات کتنے گہرے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے بعض فیصلوں سے اتفاق اور بعض سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگریہ حقیقت ہے کہ ان کے بعض فیصلے عدلیہ کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے سول اسپتال کوئٹہ خودکش حملہ میں درجنوں وکلاء کی شہادت کی تحقیقات کے دوران خفیہ ایجنسیوں، وفاقی وزارتوں، وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کی کارکردگی پر سخت تنقید کی تھی۔ مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومت کے آخری مہینوں میں ایک بے بنیاد افواہ کی بنیاد پر ایک مخصوص مذہبی گروہ نے کئی ہفتوں تک دھرنا دیا تھا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے اس حوالے سے بھی غیر معمولی فیصلہ دیا۔
انھوں نے اس فیصلے پر ایجنسیوں کے کردار کی نگرانی کے لیے قانون سازی کی اہمیت پر ایک پیراگراف تحریر کیا تھا، شاید ایسے ہی فیصلوں کی بناء پر تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا مگر مثبت بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے بانی نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد اس ریفرنس پر معذرت کی تھی۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بنچ بنانے کے مطلق العنان اختیار کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور پھر ان کی قیادت میں سپریم کورٹ کی فل بنچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بنانے کے پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کی منظوری دی تھی۔
یہ حقیقت ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ اس قانون کی بناء پر اپنی ریٹائرمنٹ کے آخری تین مہینوں میں تنہائی کا شکار ہوگئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ڈویژن بنچ نے حالیہ دنوں میںجو ایک فیصلہ دیا ہے۔وہ ایک مخصوص گروہ کو پسند نہ آیا، یوں ایک احتجاج کی کیفیت پیدا کی گئی۔
پاکستان جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار سے مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہے۔ اس انتہا پسندی کی وقت گزرنے کے ساتھ نئی جہتیں سامنے آئی ہیں۔ گزشتہ ہفتہ سابقہ قبائلی علاقہ کرم ایجنسی کا واقعہ بھی انتہاپسندی کا ہی نتیجہ تھا۔ملک میںہزاروں افراد انتہاپسندی کی نذر ہوچکے ہیں۔ سیالکوٹ میں سری لنکا کے ایک شہری کو مذہبی انتہا پسندی کی آڑ میں ہجوم نے قتل کیا تھا۔ ولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان اسی طرح قتل ہوئے۔ سوات کا واقعہ تو بالکل تازہ ہے۔ سوات کے بازار میں کچھ افراد کے اشتعال دلانے سے ایک ہجوم کے ہاتھوں ایک شخص بے دردی سے مارا گیا تھا۔
مذہبی انتہا پسندی کے واقعات کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ پاکستان کا آئین اور قانون مذہبی انتہا پسندی کو تقویت دیتے ہیں۔ عجب بات ہے کہ کئی مذہبی انتہا پسند تنظیموں پر تو برسوں پہلے پابندی لگا دی گئی تو وہ نئے ناموں سے کام کرنے لگیں مگر ایک تنظیم پر پابندی لگی اورپھر ختم بھی ہوگئی۔ اس تنظیم کو بار بار دھرنا کی اجازت بھی دیدی اور ہمیشہ وزراء نے ان کے رہنماؤں سے مذاکرات کیے۔ سابقہ دور میں ایسے ہی عناصر فرانس سے تعلقات ختم کرنے کے لیے احتجاج کررہے تھے اور سابقہ حکومت ان سے مذاکرات کررہی تھی اور موجودہ حکومت نے بھی ان سے مذاکرات کیے۔
سندھ ہائی کورٹ کے ایک سابق جج کا کہنا ہے کہ مذہبی انتہا پسند نظام عدل کو بھی یرغمال بنا لیتے ہیں اور من مانے فیصلے کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ ملتان کے انسانی حقوق کے ایک کارکن کا کہنا ہے کہ ایک استاد ایسی ہی صورتحال کی بناء پر 10برسوں سے جیل میں بند ہے۔ مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومت اسی طرح کے مذہبی انتہا پسندوں کے دباؤ کا شکار ہوئی تھی۔
منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال پر ایک جنونی نے قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ تحریک انصاف کے بانی کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا مگر ان تمام حقائق جاننے کے باوجود ریاست اور سیاسی جماعتوں کی قیادت اور بااثر علماء مذہبی انتہا پسندی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے میدان عمل میں نہیں آئے۔ اب تو صحافی اس بات پر بھی احتجاج کر رہے ہیں کہ ان کے جو ساتھی اقلیتی امور سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں انھیں بھی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی نے اس صورتحال کو معروضی صحافت کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ تمام ریاستی ادارے اس عنصریت کے خاتمے کے لیے ایک پیج پر آجائیں تو پھر زندگی کے ہر شعبے میں بھی ویسی ہی اصلاحات لانی ہوںگی جیسی اصلاحات جدید ترکیہ کے بانی کمال اتا ترک نے کی تھیں تو مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ ہوجائے گا اور خوشحال اور ترقی کا نیا دور شروع ہوسکتا ہے۔