افسانوں کا مجموعہ فلسطین اور اہم رسائل (پہلا حصہ)

افسانوں کا مجموعہ فلسطین اور اہم رسائل (پہلا حصہ)


کئی رسائل اور افسانوں کا مجموعہ ’’ ریزہ ریزہ خدو خال‘‘ کے سحر میں گم ہوں۔ جہاں میرا پسندیدہ موضوع فکشن ہے، اس کے ساتھ ہی سیاست و معاشرت کے مختلف پہلو مطالعے کی طرف راغب کرتے ہیں۔ ہماری گھریلو سیاست ہو یا ملکی سیاسی حربے، عوام کو حیرانی و پریشانی میں مبتلا رکھتے ہیں، سیاستدانوں کا روز اپنی چال بدلنا بھی محب وطن پاکستانیوں کو کرب و بلا میں مبتلا کرتا ہے، اسی طرح ملکی و غیر ملکی واقعات و سانحات کا احاطہ ماہنامہ ’’ زاویہ نگاہ‘‘ بڑی مہارت اور منصفانہ رویے کے ساتھ کرتا ہے۔

’’زاویہ نگاہ‘‘ کے چیف ایڈیٹر نصرت مرزا اور ایڈیٹر یوسف راہی ہیں، جو بہت اچھے شاعر بھی ہیں۔ نصرت مرزا ایک نجی چینل پر بھی اپنے خیالات کا اظہار حالاتِ حاضرہ کی روشنی میں کرتے ہیں، بے باک اور نڈر صحافی ہیں، سچی بات کرتے ہوئے وہ کسی ڈر اور خوف کا شکار نہیں ہوتے ہیں۔

ہمت مرداں مدد خدا کے مصداق صداقت کی روشنی کی لو کو بڑھانے کے لیے ہمہ وقت پرعزم رہتے ہیں، تازہ شمارہ فروری 2025 میرے سامنے ہے، مارچ اور اپریل کا شاید ایک ساتھ ہی مجھے موصول ہو۔ سب سے پہلے ہم نصرت مرزا کے کالم کی ابتدائی سطور سے قارئین کو متعارف کراتے ہیں۔

اس کا عنوان ہے ’’سیکنڈ ایٹمی اسٹرائیک صلاحیت‘‘ Second Atomic Strike Capability کی اصطلاح دوسرے ایٹمی حملے کی صلاحیت کے لیے استعمال ہوتی ہے جیسے کوئی ملک ایٹمی طاقت تو بن جائے مگر اس کے بعد دوسرے حملے کی صلاحیت موجود نہ ہو تو ایٹمی طاقت بے معنی ہو جاتی ہے، اس لیے کہ دشمن اس کو حملہ کر کے نیست و نابود کر سکتا ہے۔ 

دشمن اس وقت خوف کھاتا ہے جب اس کو یہ معلوم ہو کہ اگر اس نے ایٹمی حملہ کیا تو جواب میں حملہ زدہ ملک میں اگر زمین پر کچھ نہ بچے تو سمندر سے حملہ آور ہو کر اس ملک کو بھی تباہ کرسکتا ہے، اس لیے دشمن کو خوف میں مبتلا رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایٹمی ملک کے پاس دوسرے حملے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ اس بات سے سب واقف ہیںکہ گوادرکی بندرگاہ پاکستان کی ملکیت ہے۔

پورا صوبہ ہی پاکستان کا ہے۔ ’’ یوم یکجہتی کشمیر پس منظر اور اہمیت‘‘ سچائی پر مبنی ایک مدلل تحریر ہے، جس کے قلم کار بلال احمد ہیں۔ انھوں نے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے اس بات کی یاد دہانی کرائی ہے کہ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ تنازع کشمیرکا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے نکالا جائے۔

نیز یہ کہ کشمیری عوام نے بھارت کی ناپاک جسارت کے تحت بے شمار مظالم سہے ہیں، ان کی عزت و ناموس اور خواتین کی آبرو کو تار تار کیا گیا ہے لیکن وہ اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے۔ انھوں نے اپنے دشمن کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ ڈٹ کر کھڑے ہوئے ہیں۔ گوکہ جابر حکمرانوں نے کشمیریوں کی روح پر ایسے کاری زخم لگائے ہیں جن کے مندمل ہونے میں صدیوں کا عرصہ درکار ہے۔ مضمون میں شامل نظم سے چند مصرعے:

دنیا کے منصفو! اے دنیا کے منصفو! سلامتی کے ضامنو!

کشمیر کی جلتی وادی میں، بہتے ہوئے خون کا شور سنو!

اب چاہے ہمارے گھر نہ رہیں یا جسم پر اپنے سر نہ رہیں

ہم پھر بھی کہیں گے آزادی، آزادی

کتابی سلسلہ زیست 20 اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔ شعر و سخن، افسانے، تراجم اور راقم السطور کا ناول ’’ مٹی کی دنیا‘‘ اشاعت کا خاص حصہ ہے۔ سلمیٰ اعوان قاری کے لیے جانا پہچانا اور معتبر نام ہے، ان کا سفرنامہ ’’تھین آن من اور ریڈ اسکوائر کے موازنوں میں نئے انکشافات‘‘ بھی شامل ہے۔ ’’انتظار حسین کا فن تحریر‘‘ مقالے کے لکھاریوں میں قدوس مرزا اور سلیم صدیقی شامل ہیں، اور جان پامک کی نظر میں ناول کا فن، ڈاکٹر نعمت الحق کا تحریر کردہ مقالہ ہے جو بہت سی اہم معلومات کے در وا کرتا ہے۔

شعر و شاعری اور افسانوں کا حصہ بھی توانا اور پرکیف ہے۔ 420 صفحات کا احاطہ کرنے والا پرچہ ’’زیست‘‘ پاکستان کے علاوہ ہندوستان اور دوسرے ممالک میں بھی اپنی خصوصی شناخت رکھتا ہے۔ ترتیب ڈاکٹر انصار شیخ اور تقسیم کار رنگ ادب پبلی کیشنز، اردو بازار، کراچی اور شہزاد سلطانی۔

’’انشا‘‘ کا شمارہ بھی میری توجہ کا منتظر ہے، میں کئی ہفتوں سے خامہ فرسائی کرنے کی خواہش مند ہوں لیکن وہ خواہش ہی کیا کہ ہر خواہش پر دم نکلے، سہ ماہی ’’انشا‘‘ کے مدیر پروفیسر صفدر علی انشا ہیں۔ 31 سال سے مسلسل شایع ہو رہا ہے، ہمیشہ ہی نت نئی تحریروں سے مزین ہوتا ہے۔

حمدیہ اور نعتیہ شاعری کے بعد ڈاکٹر اسلم فرخی کا خاکہ نما مضمون پروفیسر حبیب اللہ غضنفر خاصے کی چیز ہے، بے حد دلچسپ اور معلوماتی ہے۔ 26 صفحات پر مشتمل خاکہ قاری کے لیے ایک اہم دستاویز سے کم نہیں، خواجہ رضی حیدر نے ’’مشاعرے مجرے اور ٹھیکے‘‘ کے عنوان سے مضمون قلم بند کیا ہے اور بانی و مدیر صفدر علی خاں کی سچائی کو دیکھیے کہ انھوں نے مضمون کی پیشانی پر اشاعت مکرر لکھ دیا ہے۔

نئے پڑھنے والوں کو تو مضمون کی سج دھج اور طنز و مزاح کی چاشنی ضرور مسکرانے اور قہقہے لگانے پر مجبورکرے گی اور مقامی شاعرات کی اس محرومی کا بھی احساس ہوگا جس کا ذکر مصنف نے نہایت طمطراق سے کیا ہے بلکہ ہمدردی کے دریا بہا دیے ہیں اور سچی بات کہنے سے بھی نہیں چونکتے۔  لکھتے ہیں اس سال حقیقی و غیر حقیقی عالمی مشاعروں میں نہ فہرست کے مطابق شاعر آئے اور نہ  حیرت کے مطابق شاعرات، شاعروں کے نہ آنے کا تو ایسا ملال نہ ہوا البتہ شاعرات کی کمی ہر طبقے نے محسوس کی۔           (جاری ہے)





Source link