اختلاف رائے تو کسی بھی پارٹی میں ہو سکتے ہیں، شوکت یوسفزئی

اختلاف رائے تو کسی بھی پارٹی میں ہو سکتے ہیں، شوکت یوسفزئی



اسلام آباد:

رہنما تحریک انصاف شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف بڑی پارٹی ہے، مقبول پارٹی ہے، لوگ زیادہ آ رہے ہیں، لیڈر بھی زیادہ ہیں، ایسا ہوتا رہتا ہے، میرے خیال سے اس کو پارٹی کی لڑائی نہیں کہہ سکتے، انفرادی طور پر اگرکسی کے اختلاف ہیں تو وہ کسی بھی پارٹی میں ہو سکتے ہیں اختلاف رائے بھی ہو سکتا ہے،میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ سب ایک پیج پر ہیں۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پارٹی کا صدر ، جنرل سیکریٹری، وزیراعلیٰ ، صوبائی صدر یہ سارے ایک پی پیج پر ہیں، باقی ورکروں کے اندر یا اس میں کوئی اختلاف یا ٹکراؤ معنی نہیں رکھتا ہے۔ 

سابق سفیر ملیحہ لودھی نے کہا کہ امریکا بھارت مشترکہ اعلامیہ بہت اہم ہے ، اسی وجہ سے ہماری وزارت خارجہ نے خاصا سخت ردعمل دیا ہے اس لیے کہ ایک باہمی میٹنگ کے بعد اور ایک دوطرفہ اعلامیہ میں ایک تیسرے ملک کا اس طرح ذکر کرنا واقعی پاکستان کو قابل قبول نہیں ہے، اعلامیہ میں انھوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دے ساتھ یہ بھی کہا کہ ممبئی حملے اور پٹھان کوٹ حملے کے ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے،اعلامیے کے اس حصے سے ظاہر ہے پاکستان ناخوش ہے۔ 

تجزیہ کار شہباز رانا نے کہا کہ آئی ایم ایف کا مشن بدعنوانی اور طرز حکمرانی کا تشخیصی جائزہ (کرپشن اینڈ گورننس ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ)اس طریقے سے غیر معمولی نہیں تھا کہ اس کا فیصلہ پچھلے سال ستمبر میں ہی ہو گیا تھا، اس کا ایجنڈا ابھی فائنل ہوا ہے، اس کی اہمیت آپ اس بات سے لگا لیجیے کہ وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ میں دو دن قبل بیان دیا کہ آئی ایم ایف کے وفد کی جو چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات ہوئی ہے وہ جو پی ٹی آئی نے خطوط لکھے تھے اس کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف جو کہتا ہے وہ ہمیں کرنا پڑتا ہے، ایک ادارے کو جس کا جوڈیشل سسٹم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اس حد تک رسائی دینا یہ کوئی مناسب بات نہیں۔





Source link