آخر کچھ تو مسئلہ ہے!

آخر کچھ تو مسئلہ ہے!


گزشتہ کل آٹھ فروری کا دن تھا۔صبح اخبار کھولا تو پورا صفحہ موجودہ حکومت کی کامیابیوں اور کارناموں سے بھرا پایا۔ باقی صفحات پر نظر دوڑائی تو معمول کا ماحول نظر آیا۔

پہلی شہ سرخی نے یوں استقبال کیا، 26 ویں ترمیم کیس سننے والے آئینی بینچ پر عوامی اعتماد پہلے ہی متزلزل ہے۔ فل کورٹ بنایا جائے، سپریم کورٹ میں جج نہ لگائیں۔ چار ججز کا چیف جسٹس کو خط۔

ایک اور شہ سرخی کچھ یوں تھی : پاکستان کی 3.4 ارب ڈالر قرض دو سال کے لیے ری شیڈول کرنے کی درخواست, چین کا مثبت رویہ۔

پاکستان کو پانچ ارب ڈالر بیرونی فائننسنگ گیپ کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف کے تین سالہ پروگرام کے لیے فائنینسنگ ذرایع کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے۔ امید ہے چین درخواست قبول کر لے گا۔ چین چار ارب ڈالر کے نقد ذرایع ساڑھے چھ ارب کے تجارتی قرضوں اور 4.3 ارب ڈالر کی تجارتی مالیاتی سہولت کو رول اور کرتا آ رہا ہے۔

وزیر خزانہ چار ارب ڈالر کے نئے قرض کی درخواست بھی کر چکے ہیں۔ حکومتی ذرایع پر امید ہیں کہ چینی حکام کا رویہ مثبت ہے اور بیجنگ پاکستان کی بیرونی فنڈنگ کے مسائل کو کم کرنے کی درخواست قبول کرلے گا۔

ایک اور خبر کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی پانچ میں سے تین بڑی شرائط پوری کر لیں۔ وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ جاری سات ارب ڈالر کے پروگرام کے پہلے جائزے کے لیے پاکستان نے پانچ میں سے دو شرائط پوری کر لیں۔

حکام کو امید ہے کہ یہ جائزہ پروگرام کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔بیک پیج پر کونے کھدرے میں ایک خبر کچھ یوں تھی پنجاب میں محکمہ بہبود آبادی صوبے میں شرح پیدائش کم کرنے میں ناکام۔ 1998 میں پنجاب کی کل آبادی سات کروڑ 36 لاکھ تھی، آج 12 کروڑ 76 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ محکمے کا موقف ہے ہمارا کام آبادی روکنا نہیں صرف مینج کرنا ہے۔ 2023 کے ان اعدادوشمار کے مطابق آبادی میں اضافہ 2.85 فیصد کی رفتار سے ہو رہا ہے۔

اس کیفیت پر منیر نیازی یاد آئے:

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

یوں تو پچھلی کئی دہائیوں سے ہی ہمارے سیاسی اور معاشی سفر کی یہی کیفیت ہے کہ حرکت تو تیز تر ہے مگر سفر آہستہ۔ سیاسی میدان میں دیکھیں تو ایک گرہ کھولنے کی کوشش میں کئی نئی گرہیں پڑ جاتی ہیں۔

ایک آزمائش سے جان چھوٹتی نہیں دو مزید آزمائشیں منتظر ملتی ہیں۔ پرویز مشرف کے بعد چارٹر آف ڈیموکریسی سے سیاسی جوار بھاٹا قدرے تھما تو روایتی پارٹیوں اور خاندانوں نے سکھ کا سانس لیا کہ اب ’’ستے خیراں‘‘ ہیں۔ باری باری سب حکمران ہوں گے، یوں ان کی اگلی نسلیں بھی کامران ہوں گی لیکن 2014 کے بعد ایک اور دور شروع ہوا جو ادل بدل کے ساتھ ابھی تک جاری ہے۔

آج کی سب کی بڑی حقیقت یہی ہے کہ ملک تاحال سیاسی عدم استحکام کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ سیاسی کھینچا تانی میں آئینی اداروں کی عزت سادات بھی داؤ پر لگ گئی ہے۔ انتخابات سیاسی اور انتظامی تسلسل کا انتظام ہوتے ہیں ، عوامی رائے کا مظہر ہوتے ہیں۔ عام انتخابات کا اہتمام کرنے والا آئینی ادارہ سیاسی کھینچا تانی میں مصروف لوگوں نے متنازعہ کردیا ہے۔

سیاسی تقسیم اور کھینچا تانی کا دھواں اعلیٰ عدالتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا۔ آئینی ترمیم، آئینی بنچ اور نئے ججز کی تعیناتی سے ایک گرہ کھلی مگر دس نئی گرہوں کا وبال پیدا ہو گیا۔ سب اپنے اپنے آئینی وضاحتی سچ کے ساتھ صف بستہ ہیں۔ باقی اداروں کا تو ذکر ہی کیا جب ملک کے اعلیٰ ترین عدالتی ادارے اپنی اپنی گرہوں کو کھولنے یا پختہ کرنے میں مگن ہیں!

سیاسی تقسیم بیشتر ممالک میں ہوتی ہے، اس تقسیم کے سائے اعلیٰ آئینی اداروں پر بھی پڑتے ہیں مگر ملکی مفاد ، عوامی رائے اور تاریخ کا شعور آگے بڑھنے کا عمل جاری رکھتا ہے۔ انفرادی ہار جیت ہوتی رہتی ہے لیکن ملک اور ادارے مظبوط ہوتے چلے جاتے ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں جنوبی کوریا میں صدر نے مارشل لاء لگانے کا اعلان کیا تو پارلیمنٹ میں ان کی اپنی پارٹی سمیت ارکان اور بیرون پارلیمنٹ عوامی غیض و غضب نے انھیں اعلان واپس لینے پر مجبور کیا۔ پارلیمنٹ نے مواخذے کی تحریک پاس کرکے تاریخ رقم کر دی۔معاملہ آئینی عدالت میں پہنچا تو موصوف کو حلف شکنی کا مرتکب پایا گیا۔

معیشت میں مقامی سرمایہ کاری، برآمدات، صنعتی اور زرعی پیداوار میں اضافہ پائیدار معاشی نمو کی اصل بنیاد ہے تاہم سیاسی عدم استحکام اور دھما چوکڑی سے یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ اس کے باوجود عوام کو خوشخبریوں سے مالا مال رکھنے کی کوشش میں پی ڈی ایم کی حکومت نے آخری دنوں میں اربوں ڈالرز کے معدنی ذخائر کی دریافت اور ان کے لیے دوست ممالک کے مچلتے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کا خوب ڈھول بجایا۔

ڈھول خاموش ہوا تو ایک لمبی چپ نے بسیرا کر لیا۔ اب موجودہ حکومت نے شمالی قبائلی علاقوں میں اربوں ڈالرز کی معدنیات کی خوش خبری سنائی۔ سرمایہ کاری کانفرنسوں میں دوست ممالک کے ایم او یوز کی بہار دکھائی۔ اٹک کے آس پاس سونے کے ذخائر نے بھی کچھ دن دل لبھایا۔ ریکوڈک میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری اور اب سی پیک کی نشاط ثانیہ کی خوشخبری۔ خوش خبریوں کی بہار ہے لیکن عملی میدان کی حالت زار کچھ اور ہے۔

وزیراعظم کی کامیاب پرفارمنس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھنے کی شرح دو سالوں میں کم ترین لیکن عوام بجلی کے بلوں سے بلبلایے ہوئے اور قوت خرید سے محروم ہیں ، اسٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح پر لیکن اس دوران ایک بھی نئی کمپنی لسٹ نہیں ہوئی۔ صنعتی اور زرعی پیدوار کم و بیش جامد۔ بے روزگاری وافر اور روزگار کے مواقع محدود تر۔ میڈیا پر ایک ہی موضوع صبح شام چھایا ہوا ہے۔ اگر بہ قول حکومت ہر چہ بادا باد ہے تو پھر یہ سیاسی عدم استحکام چار سو کیوں یے؟ آخر کچھ تو مسئلہ ہے!





Source link