نیوٹن کا تیسرا قانون (لنڈے کے لبرل مت پڑھیں )

محل ماڑیوں اور غریب باڑیوں میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں ہر نئے آنے والوں کو درجنوں انسانی آنکھوں اور سوالوں کا سامنا کرنے کے بعد ہی داخلے کے قابل سمجھا جاتا ہے۔ آج صبح صبح آنے والے نے محلے کے داخلی راستے کی پہلی گلی سے نکلتے شاہجہان کریانے والے سے جبار وکیل کے گھر کا راستہ پوچھا تو اس نے راستہ بتانے سے پہلے اس کی آمد کا مقصد معلوم کیا اور ضروری معلومات مل جانے کے بعد اسے اس کی منزل کا پتہ بتا کر خود چوک میں پھٹے پر بیٹھے چند نکموں کی طرف بڑھ گیا۔ اور آنے والا اپنی سائیکل کے پیڈل مارتا مسجد والی گلی میں مڑ گیا۔

”کون ہے؟ “ ایک نکمے نے سگریٹ کے کش سے پھپھڑوں کے جراثیم مارتے ہوئے پوچھا

”کرائے کا مکان ڈھونڈ رہا ہے۔ جبار وکیل کے گھر کا پتہ پوچھ رہا تھا“ شاہ جہان نے سگریٹ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے جواب دیا

جبار وکیل اس علاقے کا ایک دور اندیش آدمی تھا جس نے اپنے آبائی محلے کے علاوہ آس پاس کے علاقوں میں کئی مکان بنا رکھے تھے جو سارا سال مناسب کرائے پر اٹھے رہتے تھے۔ دس بارہ سال سے کمر کے درد نے اس کی وکالت تو ٹھپ کر دی تھی لیکن کرائے کا مکانوں کا دھندہ خوب چل رہا تھا۔ اچھے وقتوں میں کی گئی اس سرمایہ کاری کے درخت ہر ماہ پھل دیتے تھے۔

”ہے کہاں کا؟ “ دوسرے نکمے نے سوال داغا

”کوٹلے کا۔ بال بچوں والا ہے۔ زوار حسین نام ہے“ شاہ جہان نے تین کشوں میں تین بنیادی معلومات فراہم کرنے کے بعد سگریٹ پہلے نکمے کی طرف بڑھا دیا

”نام سے تو شیعہ لگ رہا ہے؟ “ پہلے نکمے نے اپنا قیاس لگایا

”شیعہ ہی ہے۔ انگلی میں فیروزہ تھا اس کی“ شاہ جہان نے اس کے قیاس پر اپنے یقین کی مہر لگا کر اپنی دکان کا تالا کھول دیا

اس زمانے میں شیعہ سنی نفرت کی وبا اپنے مرکزسے نکل کر اس شہر میں بھی پھیل چکی تھی ہر سال محرم کے مہینے میں یہ وبادونوں طرف سے دس بارہ لوگوں کے سر لے جاتی اور باقی کے گیارہ مہینے اگلے محرم میں انتقام کی تیاریاں ہوتی رہتی تھیں۔ اس محلے میں دہائیوں سے آباد چالیس پچاس شیعوں کے گھر تھے لیکن جب وبا اپنے عروج پر پہنچی تو ان میں سے زیادہ تر اپنی جان کے خوف سے سب کچھ اونے پونے بیچ کر ان علاقوں میں جا بسے تھے جہاں ان کے ہم مسلک اکثریت میں تھے۔ ان میں سے زیادہ تر گھر جبار وکیل نے خریدکر اپنے مختلف بیٹوں کے نام لگا دیے تھے۔ اب تین چارسیدوں کے گھر باقی تھے۔ جن میں ایک لاولد اور ضعیف جوڑا تھا ان سے کسی کو کوئی مسئلہ نہیں تھا کیوں کہ وہ محرم کے دس دن محلے میں ہی رہتے تھے کسی مجلس اور جلوس میں نہیں جاتے تھے اس لئے محلے کے لئے قابل قبول تھے۔ دوسرا گھرانہ صاحب اولاد تو تھا لیکن ان کے دونوں لڑکے سننے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم تھے۔ گونگے بہرے شیعوں سے بھلا کسی کو کیا دقت ہوتی اس لئے ان کو بھی کچھ نہیں کہا جاتا تھا۔ تیسرا ہومیو پیتھک ڈاکٹر غلام عباس شاہ تھاجو اپنے پیشے کی طرح خود بھی ہومیوپیتھک قسم کا شیعہ تھاجو اپنی دونوں بیٹیاں کراچی میں بیاہنے کے بعداپنی بیوی کے ساتھ اپنی گھر کے آنگن میں پڑا ان نواسے نواسیوں کی راہ دیکھتا رہتا تھا جو کبھی اس محلے میں آئے ہی نہیں۔ غلام عباس شاہ کے مکان پر نظریں جمائے بیٹھا جبار وکیل ہفتے میں ایک بار کمر کے علاج کے بہانے شاہ جی کے اجڑے دیار پر ضرور حاضری دیتا تاکہ اندازہ لگا سکے کہ کہ بوڑھے سید کا اس دنیا سے دانہ پانی اٹھنے والا ہے۔

اگلے آدھے گھنٹے میں یہ خبر پورے محلے کے کانوں تک پہنچ چکی تھی کہ سہراب کی سائیکل پر سوار زوار حسین نام کا ایک پینتالیس پچاس سالہ شیعہ کرائے کا مکان تلاش کرتا پھر رہا ہے۔ ظہر کی نماز کے بعد جبار وکیل چند سرکردہ نمازیوں کے گھیرے میں تھا جو اس کی زوارحسین سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں جاننے کے لئے بے تاب تھے۔ مولوی ابراہیم کے پوچھنے پر وکیل نے انکشاف کیا کہ اس نے اپنا ایک مکان زوار حسین کو کرائے پر دے دیا ہے۔

”کوئی واقفیت نکل آئی تھی؟ “ بابو فضل نے سنتوں سے سلام پھیرتے ہوئے پوچھا

”شیعوں سے جبار خان کی کوئی واقفیت نہیں ہے بابو صاحب۔ یہ تو شیعوں کو اس نظر سے دیکھتا ہے جیسے اللہ بخشے ہٹلر یہودیوں کو دیکھا کرتا تھا۔ ہٹلرکہتا تھا کہ دنیا میں صرف دو قوموں کو جینے کا حق ہے ایک جرمن اور دوسرے مسلمان“ وکیل کے جواب دینے سے پہلے ہی حاجی فیض محمد اس کی حمایت میں خوامخواہ بول پڑا

”لالٹین تو بس ویسٹن جرمنی کے“ صوفی ہاشم نے داڑھی میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے اپنے علم کے دریا کا بند توڑا

”اللہ بابے کی قبر کو روشن رکھے دوسری جنگ عظیم میں برما کے محاذ سے لالٹینوں کی جوڑی لایا تھا۔ ایک چوری ہو گیا لیکن دوسرا جو بچ گیا ہے، اللہ کے گھر میں کھڑا ہوں، آج تک ویسے کا ویسا ہے جیسے ابھی ابھی کارخانے سے نکلا ہو۔ چمنی تک نہیں ٹوٹی 50 سال سے۔ لالٹین تو بس ویسٹن جرمنی کے“

اس سے پہلے کہ صوفی ہاشم ایسٹ اور ویسٹ جرمنی کے لالٹینوں اور جرمنوں کا فرق اور ان کا جغرافیہ بتاتا۔ بابو فضل نے بات کو دوبارہ وہیں سے اٹھایا جہاں سے وہ بھٹک کر ہٹلر اور یہودیوں کی ہڈیوں تک چلی گئی تھی

”ہم نے تو سنا ہے شیعہ ہے“۔ بابو فضل نے درود کے بعد اپنے جثے پر پھونک مارتے ہوئے پوچھا

”بخاری سید ہے۔ سید زروار حسین شاہ نام ہے اور میرے ایک بہت قریبی جاننے والے کا جاننے والا ہے“ جبار وکیل نے ایک سانس میں اپنی بات مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا

”سنی سید ہے؟ “ بابو فضل نے تفتیشانہ لہجے میں پوچھا

”نہیں۔ لیکن باقیوں کی طرح کٹر نہیں ہے۔ اپنے غلام عباس شاہ جیسا بے ضرر شیعہ ہے“ وکیل کے لہجے سے یقین جھلک رہا تھا

”شیعہ شیعہ ہوتا ہے وکیل صاحب۔ یہ لوگ چودہ سو سال سے مسلمانوں کو تقسیم کر کے بیٹھے ہیں۔ مولانا غلام صدیق فاروقی کی لکھی تاریخ اسلام پڑھ کے دیکھ لو کہ کس طرح ان ظالموں نے امت کے ٹکڑے کیے ہیں۔ دور مت جاؤ حضرت ٹیپو سلطان کے ساتھ نمک حرامی کرنے والا میر صادق کون تھا؟ سراج الدولہ کے ساتھ غداری کرنے والے میر جعفر کا کیا مسلک تھا؟ اور تو اور ہندوستان کے مسلمانوں کو تقسیم کرنے میں بھی انہی کا ہاتھ ہے چاہے محمد علی جناح ہو یا لیاقت علی خان یا سر آغا خان۔ یہ لوگ نہ ہوتے توہندوستان پر آج بھی ہماری حکومت ہوتی“

مولوی ابراہیم نے چار جملوں میں اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ سمیٹ کر جبار وکیل کے منہ پر مار دی۔

”اللہ کی مہربانی اور علماءکی محنت سے محلہ ان تبرا بازوں سے خالی ہوا تھا اور تم ایک اور کو اپنا مکان کرائے پر دے کر دوبارہ وہ راستہ کھول رہے ہو جس کو ہمارے جوان بچوں نے اپنا خون دے کر بند کیا ہے“

یہ بات کرتے ہوئے بابو فضل کی آواز ایسے رندھ گئی جیسے آنسو آنکھ سے نکلنے کی بجائے اس کے گلے پر گر رہے ہوں

شاید اسے اپنا منجھلا بیٹاعاصم یاد آرہا تھا جس کی لاش چار سال پہلے کھیتوں سے ملی تھی لیکن قاتلوں کا سراغ نہیں ملا تھا۔ اللہ کے اس سپاہی نے جھنگ کے ایک مدرسے سے عالم کا کورس کرنے کے بعددن رات ایک کی محنت سے اسلام دشمنوں کو بے نقاب کر کے جوانوں میں اپنے مسلک کا شعور بیدار کیا۔ ورنہ اس سے پہلے تو سادہ اور معصوم سنی بے چارے نہ صرف ان سے میل جول رکھتے تھے بلکہ ایک دوسرے سے رشتے بھی کر دیتے تھے۔ سنیوں کے گھروں میں شیعوں کی بیٹیاں تھیں اور شیعوں کے گھروں میں سنی لڑکیاں۔ اس گمراہ فرقے کی کارستانیاں ایک ایک مسلمان تک پہنچانے میں مولانا عاصم کا بہت بڑا ہاتھ تھا اور اس کے پیچھے پوری جماعت کا ہاتھ تھا۔ اپنی اور امت کی بیداری اس لڑکے کا واحد قصور تھا اس لئے راستے سے ہٹا دیا گیا۔ لیکن اللہ کا انصاف تو ہونا ہی تھا۔ جن جن لوگوں پر بابو فضل کو شک تھا اس نے ایف آئی آر میں نہ صرف ان کو بلکہ ایران کے آیت اللہ خامنائی کو بھی نامزد کر دیا۔ محرم آنے سے پہلے پہلے ہی مولانا عاصم کی جماعت نے خامنائی کے سوا سارے نامزد مجرم ایک ایک کر کے مار ڈالے۔ خون ناحق کا بدلہ لے لیا گیا۔ بابو فضل کا گلا اسی شہید بیٹے کی یاد میں رندھ رہا تھا

”یہ زوار شاہ کرتا کیا ہے؟ “ صوفی ہاشم نے ماحول کی گھٹن کے کھڑے پانی میں اپنے سوال کا پتھر پھینکا

”پولیس میں ہے۔ اے ایس آئی۔ “ جبار وکیل نے جواب دے کر سنتوں کی نیت باندھ لی جو سب کے لئے اشارہ تھا کہ وہ اب اس موضوع پر مزید بات کرنے کی بجائے اپنے رب کو راضی کرنا چاہتا ہے۔ سارے بزرگ اسے خدا کے حوالے کر کے مسجد سے باہر نکل گئے وکیل کی سنتیں ادا ہونے سے پہلے ہی یہ بزرگ اس خبر کو پھیلانے کا فرض ادا کر چکے تھے کہ ایک شیعہ پولیس والے نے اپنی وردی کی طاقت سے ان کے ایک سنی بھائی کا گھر کرائے پر حاصل کر لیا ہے۔ سارامحلہ زوار شاہ اے ایس آئی کے آنے کا انتظار کرنے لگا
ایسی وبا پھیلی ہے کہ ساری دنیا ایک دوسرے سے منہ چھپانے پر مجبور ہو چکی ہے جیسے کسی زمانے میں ہمارے محلے سے قریشی صاحب کی سب سے چھوٹی لڑکی اپنے کسی چاہنے والے کے ساتھ بھاگ گئی تو سارا قریشی خاندان منہ چھپائے پھرتا تھابڑے قریشی صاحب نے تو گھر سے ہی نکلنا چھوڑ دیا، نکلے بھی تو چار کندھوں پر اور جا کے بڑے قبرستان میں دفن ہو گئے۔ اس وبا میں بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے سارے شہر کی چھوٹی بڑی سب بیٹیاں اپنے اپنے چاہنے والوں کے ساتھ بھاگ گئی ہوں اور سب ایک دوسرے سے منہ چھپائے پھرتے ہوں، گھروں میں قید ہو گئے ہوں۔

میں حکومت کی طرف سے شہروں کی بندش کی افواہیں پھیلتے ہی کھانے پینے کی چیزوں کا ذخیرہ کرنا شروع کر چکا تھا۔ اس پر میری بیوی مجھے سنکی سمجھنے لگی۔ اس کا خیال تھا کہ وبا کے پردے میں حکومت ملکی اکانومی کو تیز کرنے کے لئے چال چل رہی ہے اور میں حکومت کے جھانسے میں آرہا ہوں، ایسے کیسے پورا ملک بند کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب اس بندش کا باقاعدہ اعلان ہوا سب گھروں میں بند کر دیے گئے تو بیگم نے میری دوراندیشی کی داد دی۔ میرا خیال ہے پہلے مجھے آپ کو اپنے بارے میں سرسری طور پر بتا دینا چاہیے تاکہ آپ کو یہ نہ لگے کہ آپ کسی اجنبی سے بات کر رہے ہیں۔

میں ایک سرکاری ملازم ہوں اور اسلام آباد کی ایک سرکاری کالونی میں بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہوں۔ میری بیگم ایک سکول میں فزکس پڑھاتی ہیں اور ہما رے دو بچے ہیں بیٹی ماشاءاللہ تیرہ سال کی ہے اور بیٹا سات سال کا ہونے والا ہے۔ ایک سرکاری ملازم کا اس سے زیادہ تعارف ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لئے اب آگے بڑھتے ہیں۔ ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ شروع شروع میں تو ہم سب کو Paid چھیٹوں کے مزے آنے لگے لیکن پھر اکتاہٹ ہونے لگی۔ دس دن بعد جب حکومت نے لاک ڈاؤن میں توسیع کی تو اکتاہٹ خوف میں بدل گئی۔ سب کو اندازہ ہو گیا کہ دوسرے ملکوں کی طرح ہم بھی اس وبا کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ اب ہمارے مردے بھی غسل دیے بغیرگڑھوں میں گاڑ دیے جائیں گے۔

ٹی وی پر خبریں آئیں کہ ہمارے ملک میں شیعہ زائرین ایران سے اس وبا کا بیج لائے ہیں اور جگہ جگہ پھیلا بھی چکے ہیں۔ ہماری نا اہل سرکار کی غفلت نے پورے ملک کو ایسی سڑک پر ڈال دیا تھا جو سیدھی قبرستان جا کے ختم ہوتی تھی۔ حکومت کو اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ وبا ایران میں سینکڑوں لوگوں کو نگل چکی ہے پھر بھی زائرین کے لئے باڈر کھول دی گئی۔ اللہ جانے یہ فیصلہ کرنے والوں نے فیس بک پر چلنے والی یہ حدیث کیوں نہیں پڑھی جس میں حکم دیا گیا ہے کہ جب کسی علاقے میں وبا پھیل جائے تو اس علاقے سے نہیں نکلنا چاہیے۔ لیکن سرکاری ارسطوؤں نے آقا کی حدیث کو پشت کر کے اس وقت تفتان باڈر کھول دی جب دنیا کا ہر ملک اپنی سرحدوں کو بند کر رہا ہے۔ گاڑیاں چل رہی ہیں نہ جہاز اور نہ ہی کارخانے، چین کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے، اٹلی میں لوگ تھوک کے حساب سے مر رہے ہیں، دنیا کی اکانومی لڑکھڑا کے رہ گئی ہے اور تو اور بیت اللہ شریف کا طواف رک گیا ہے لیکن نہیں رکے تو ایران سے آنے والے زائرین نہیں رکے۔

ہم میں سے کوئی بھی پچھلے دس دن سے گھر سے نہیں نکلا۔ بیگم اپنے سٹوڈنٹس کو آن لائن ٹیوشن پڑھاتی رہتی ہے اور میں وٹس ایپ پر آنے والی خبریں پڑھتا رہتا ہوں۔ کل وہ ان کو نیوٹن کے تیسرے قانون کا سبق پڑھا رہی تھی کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے ہم نے بھی میڑک کی فزکس میں اس قانون کا رٹا لگایا تھا لیکن اس وبا میں پہلی بار اس قانون کی ٹھیک طرح سے سمجھ آئی ہے اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ کرونا کی وبا زمین کا ردعمل ہے ہم نے اس بے چاری کے ساتھ جتنے ظلمکیے ہیں اب ان کا حساب دینے کا وقت آگیا ہے ہم نے جنگل کاٹے، دریاؤں میں پلازے کھڑے کر دیے، کارخانوں کے دھوئیں نے کائنات کے سینے میں چھید کر دیا، جو کھیت سال میں دو بار فصل دیتا تھا اسے کھادوں کی مار دے دے کر چار فصلیں دینے پر مجبور کیا۔ زمین کے ساتھ انسان کے غیر انسانی سلوک کا یہی ردعمل ہونا تھا۔

مزید پڑھیں  اب اور کہنے کی ضرورت نہیں

آج 30 دن ہو گئے، ساری دنیا اپنے گھروں کے اندرقید ہے اور زمین سانس لے رہی ہے۔
پچھلے تین دن سے محلے کی چوک میں پڑے پھٹے پر سگریٹ کے کش لگاتے بہت سے نکمے سیکیورٹی کیمرے بنے زوار شاہ اینڈ فیملی کی راہ دیکھ رہے تھے ان میں سے کچھ وہ سامان دیکھنے کے لئے بیٹھے تھے جو زوار شاہ نے لانا تھا تاکہ گھر کے سامان کی مقدار دیکھ کر اندازہ لگا سکیں کہ پویس والا کس درجے کا حرام خور ہے کچھ اس کے گھر کے افراد کی تعداد جاننے کے لئے بے تاب تھے۔ لیکن ریاض بھینگا اس لئے بیٹھا تھا کہ وہ ان گاڑیوں سے سامان اتروانے میں مدد کرکے سو دو سو کی دیہاڑی لگا لے گا

”اوئے جا یار اپنے اڈے پر جا کے مزدوری ڈھونڈ۔ یہاں کیوں اپنا ٹائم ضائع کر رہا ہے“ ایک نکمے نے دیہاڑی کی آس میں بیٹھے ریاض کو صلاح دی۔

بھینگا سمجھ گیا کہ نکمے کو اس کا پھٹے پر بیٹھنا پسند نہیں آرہا اس لئے وہ اسے کوئی جواب دیے بغیر گردن کھجاتا اٹھا اور شاہ جہاں کی دکان کے سامنے لگے نلکے سے پانی پینے چلا گیا۔ پانی پینا تو ایک بہانہ تھا اس لئے پانی پینے کے بعد ہاتھ پیر بھی چیونٹی کی رفتار سے دھونے لگا تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت اس گلی کے سامنے رہے جس میں زوار شاہ کی سامان سے بھری گاڑیاں آ کے رکنی ہیں۔ ہاتھ پیر دھونے کے بعد بھی سرکار کی آمد کے آثار نظر نہ آئے تو نلکے کے ساتھ بنی چھوٹی سی کیاری کے سوکھے گلابوں میں لکڑی کے ساتھ گوڈی کرنے بیٹھ گیا تاکہ ایک بار پھر مٹی بھرے ہاتھ دھو کر وقت گزاری کی جا سکے۔

”میرا خیال ہے پولیس والے کے پاس مال بہت زیادہ ہے اس لئے پیکنگ میں اتنے دن لگ رہے ہیں“ پھٹے کے نیچے سے استنجے کے لئے ڈھیلے جمع کرتے ہوئے ایک نکمے نے اندازہ لگایا

”حرام کا مال جتنا زیادہ ہو اتنا ہی کم ہوتا ہے، جب آئیں گی قبریں تب ہوں گی خبریں۔ فرشتے ایک ایک من کا گرز پچھواڑے پر ماریں گے تو پتہ چلے گا حرام خور سید کو کہ کس کس کا حق مار کے مال جمع کیا تھا“ دوسرے نکمے نے وہاں سے گزرتی ماسٹر قادر کی باپردہ بیٹی کی ایڑیاں تاڑتے ہوئے جواب دیا

”یہ شیعہ آج تک فدک کا باغ نہیں بھولے ان کا بچہ بچہ کہتا ہے کہ بی بی کا حق مارا گیا لیکن خود دوسروں کا حق مار کے حرام کھاتے ہیں تب ان کا اسلام کہاں جاتا ہے“۔ تیسرے نکمے نے اپنے طور پر ایک منطقی سوال پوچھا

”یہ لوگ سنیوں کا مال کھانا حلال سمجھتے ہیں ان کو لگتا ہے کہ اس طرح فدک کا بدلہ لے رہے ہیں۔ کوئی فدک شدک نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے بی بی کے حق کا بہانہ بنا کے مسلمانوں کو تقسیم کیا تھا۔ ان کا کام ہی تقسیم کرنا ہے۔ ابوالفضل کو جانتے ہو؟ “ دوسرے نکمے نے اچانک پوچھا؟

کون ابو الفضل؟ بابو فضل کا ابو؟ ”تیسرے نکمے نے معصومیت سے پوچھا

”نہیں او بے وقوف۔ ابوالفضل۔ اکبر بادشاہ کا وزیراعظم“۔ دوسرے نے تیسرے کو دھپ لگاتے ہوئے بات آگے بڑھائی

”اس بدبخت نے اکبر جیسے مسلمان بادشاہ کو بھٹکا کے دین الہی کا اعلان کرا دیا تھا۔ وہ بھی شیعہ تھا کٹر ایرانی شیعہ۔ اسی نے شہزادہ سلیم اور اس کے باپ اکبر میں انار کلی پر جنگ کرائی تھی۔ انار کلی بھی شیعہ تھی۔ میں نے تو یہ بھی پڑھا ہے کہ ابوالفضل کی بیٹی تھی۔ وہ ایسی سازشیں کر کے، ایرانیوں کے ساتھ مل کر ہندوستان پر شیعوں کی حکومت قائم کرنا چاہتا تھا۔ جب اکبر نے انار کلی کو مروا دیا تو اس نے اپنی دوسری بیٹی نورجہان کی سیٹنگ کرا دی تھی شہزادہ سلیم سے“ دوسرے نے مغلوں کی ساری تاریخ کی ماں بہن ایک کرتے ہوئے سگریٹ کا کش لگایا
” 71 میں بنگلہ دیش بنانے والے یحییٰ خان اور بھٹو بھی شیعہ تھے۔ یحییٰ خان کی نورجہاں کے ساتھ سیٹنگ تھی۔ نورجہاں بھی شیعہ“

پہلے نکمے نے شرافت زرگر کی دیوار کی بنیادوں میں پانی چھوڑتے ہوئے صدیوں کا سفر طے کر کے بات کو مغلوں کے دور سے نکال کر 71 پر لاتے ہوئے وہیں سے آواز دی

”نہ کر۔ مطلب نورجہان ایک ہی وقت میں شہزادہ سلیم کے ساتھ بھی سیٹ تھی اور یحییٰ خان کے ساتھ بھی“۔ تیسرے نکمے کی آنکھیں ایک بار پھر حیرت سے پھٹ گئیں۔

”دفع ہو حرامی۔ ہم اس لئے تجھے اپنے ساتھ نہیں بٹھاتے کہ تو اپنے ساتھ ساتھ ہمارا حساب بھی خراب کر دیتا ہے“ دوسرا اب کی بار دھپ کی بجائے اسے لات مارتے ہوئے بولا

اس سے پہلے کہ تیسرے کو دوسری لات پڑتی دوسرے کی نظریں سہراب کی سائیکل کو ایک ہاتھ سے تھامے محلے میں داخل ہوتے زوار شاہ پر جم گئیں۔ سائیکل کے کرئیر پر کپڑے میں لپٹی سلائی مشین دھری تھی جسے گرنے سے بچانے کے لئے ایک استعمال شدہ ٹائر کی ٹیوب سے باندھا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ایک پندرہ سولہ سال کا جوان لڑکا تھا جس کے سر پر وہ صندوقچی تھی جس میں قران رکھے جاتے ہیں اس کے کندھے سے کپڑے کا ایک جھولا بھی لٹک رہا تھا جس میں یقینا کتابیں تھیں۔ پہلے نکمے نے دونوں کی شکلیں ملاتے ہوئے درست اندازہ لگایا کہ یہ لڑکا زوار شاہ کا بیٹا ہے۔ دونوں باپ بیٹوں کے پیچھے ایک سائیکل رکشے میں بہت سی گٹھڑیاں کے درمیان دو باپردہ خواتین ایسے دھنسی ہوئی تھیں کہ وہ بھی کپڑوں کی گٹھڑیاں محسوس ہو رہی تھیں۔ سائیکل رکشے کے پیچھے دو چھوٹے سوزوکی ڈالے تھے جن میں حرام کا وہ سارا مال رکھا ہوا تھا جو زوارشاہ نے فدک کا بدلہ لینے کے لئے معصوم سنیوں سے لوٹا تھا۔ چار چارپائیاں۔ ایک بڑا سا مٹی کا گھڑا۔ رضائیوں والا ایک بڑا صندوق۔ چھ مرغیاں مع دڑبا۔ لوہے کی زنگ لگی دو کرسیاں۔ آٹے کا ایک جستی صندوق۔ پانچ گملے اور پانچوں میں تلسی کے ہرے سوکھے پودے۔ ایک چھوٹی سی الماری جس کی پشت کے آدھے ہارڈ بورڈ کو دیمک چٹ کر چکی تھی۔ سب سے آخر میں ایک مریل سا کتا سوزوکی کے پیچھے کچھ اس طرح سے چلتا آرہا تھا جیسے قدرت نے اسے اس خزانے کی نگرانی پر مامور کیا ہو۔ سیدوں کا یہ گھرانہ آہستہ آہستہ اس گلی میں مڑ گیا جہاں کرائے کی منزل ان کا انتظار کر رہی تھی

”واہ سید بادشاہ واہ اس سے زیادہ سامان تو کربلا جاتے ہوئے امام حسین کے قافلے میں تھا“۔ ریاض بھینگے نے نلکے سے ہاتھ دھوتے ہوئے خود سے ہمکلامی کی اور مایوس چال چلتا مزدوری کی تلاش میں اڈے کی طرف نکل کھڑا ہوا۔

لاک ڈاون نے کائنات کا سارا نظام ڈاون کر دیا ہے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے قدرت ہم سب کو ناخلف اولاد سمجھ کر عاق کر چکی ہے۔ پوری دنیا میں لاشیں اولوں کی طرح گر رہی ہیں۔ وٹس ایپ اور فیس بک پر ویڈیوز دیکھ دیکھ کر دل دہلا جا رہاہے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ ہم سب کس کے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ مجھے تو اس کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کی سازش نظر آرہی ہے۔ فیس بک پر کل ہی ایک ویڈیو میں ایک پڑھے لکھے آدمی نے بتایا ہے کہ امریکہ چین کے سینکڑوں ٹریلین ڈالر کو قرضے کے نیچے آچکا تھا۔ اب جب قرضہ دینے کا وقت آیا تو اس نے اسرائیل کے ساتھ مل کرووہان میں وبا چھوڑ دی۔ میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ امریکہ ہی اصل مجرم ہے۔

بات پھر وہی نیوٹن کے تیسرے قانون کی آتی ہے۔ امریکہ نے ایک برا عمل کیا اورقدرت کے ردعمل نے پورے امریکہ کو گھروں میں بند کر دیا۔ اب چین تواس وبا سے محفوظ ہو گیا ہے وہاں کے ڈاکٹروں نے اپنی جانوں پر کھیل کر پورے ملک کو بچا لیا ہے لیکن امریکہ میں کام خراب ہو گیا ہے۔ لوگ ایسے مر رہے ہیں جیسے انہوں نے کسی زمانے میں ریڈانڈینز کو چن چن کے مارا تھا۔ امریکہ کی سازشوں کی سزا ہم جیسے غریب ملک بھگت رہے ہیں۔ گھر میں قید ہوئے آج پورے 37 دن ہو گئے ہیں۔ ہمارے شہر میں کیسوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے۔ کھانے کا جو سامان ذخیرہ کیا تھا وہ بھی ختم ہونے کے قریب ہے۔ اس لئے ہم سب بہت احتیاط اور کفایت شعاری کر رہے ہیں کیوں کہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ لاک ڈاون مزید کتنا عرصہ چلے گا۔

کچھ دن پہلے مجھے آٹا لینے مارکیٹ جانا پڑا واپس آکر میں نے احتیاطاً خود کو سب گھر والوں سے الگ کر لیا ہے۔ نہ میں کسی کے کمرے میں جاتا ہوں اور نہ ہی کسی کو یہ اجازت ہے کہ وہ میرے کمرے میں آئے۔ میرا کھانا بھی بیگم کمرے کے باہر رکھ جاتی ہے۔ تین دن سے میں نے اپنے بچوں کو پیار نہیں کیا بس اپنے موبائل میں ان کی ویڈیوز دیکھ دیکھ کے آنکھیں ٹھنڈی کر رہا ہوں۔ میرے پاس اپنے بچوں کی شرارتوں کی بہت سی ویڈیوز ہیں۔ بیگم کا خیال ہے کہ میں بلاوجہ وہم کر رہا ہوں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہم ہی اس بیماری کا اصل علاج ہے۔ اس لئے میں نے بیگم اور دونوں بچوں کو بھی ایک دوسرے سے دور رہنے کی تاکید کر دی ہے۔ شکر ہے اس سرکاری گھر میں اتنی جگہ تھی کہ ہم چاروں سکون سے ایک دوسرے سے دور آئسولیشن میں رہ سکتے ہیں۔

میری خود ساختہ قید تنہائی کے بعد بیگم نے لاونج میں ٹھکانہ بنا لیا ہے جہاں سے وہ اپنی آن لائن کلاسسز لیتی رہتی ہے۔ دوسرے کمرے میں کومل کا آشیانہ ہے اور تیسرے کمرے میں سفیان ہوتا ہے جب لاک ڈاون ہوا تھا تو مجھے سب سے زیادہ فکر سفیان ہی کی تھی کیوں کہ وہ ایسا بچہ ہے جو ٹک کے ایک جگہ بیٹھ ہی نہیں سکتا۔ شام سے پہلے ساری کالونی کا چکر نہ لگا لے، بچوں کے ساتھ کرکٹ نہ کھیل لے، اسے نیند ہی نہیں آتی۔ مجھے یقین تھا کہ اسے گھر میں لمبے عرصے تک روکنا میرے لئے درد سر ہو گا۔ اس لئے اس کا حل یہ سوچا گیا کہ اس کے پیروں میں ویڈیو گیم کی زنجیر ڈال دی جائے جس کا تقاضا وہ کئی مہینوں سے کر رہا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ میرا منصوبہ کامیاب رہا۔ اب وہ سارا دن کمرے کا دروازہ بندکیے گیم کھیلتا رہتا ہے۔
شاہ جہان اپنی دکان کے ایک کونے میں چائے کی دیگچی چڑھائے سٹوو کا پمپ مارکے آگ تیز کرنے میں مصروف تھا اور دوسرے کونے میں ایک دوسرے کے اوپر رکھی دو چینی کی بوریوں پر بیٹھا غفورا سپاہی اسے احتیاط سے پمپ مارنے کے مفت مشورے دے رہا تھا۔

”آہستہ آہستہ۔ ہمارے تھانے میں پچھلے ہفتے ہی ایک سٹوو پھٹا ہے۔ آج کل گوجرانوالے والے سٹوو کے سلینڈروں میں ٹھیک مٹیریل نہیں لگا رہے۔ پہلے اصلی پیتل لگاتے تھے اب تو ٹین کی ڈھولکی لگا رہے ہیں دو نمبر پنجابی“ غفورے نے پنجابیوں پر تبرا بھیجتے ہوئے اسے مفت کا مشورہ دیا۔

”پنجابی تو پیدائشی دو نمبر ہیں۔ کچھ اس زوار شاہ کا بھی بتاؤ، یہ کتنے نمبر کا ہے؟ کون ہے؟ کچھ پتہ ہے آگے پیچھے کا؟ “ شاہ جہان نے تین الائچیاں ڈالتے ہوئے دیگچی پر ڈھکن لگا دیا تاکہ ہلکی آنچ کا دم الائچیوں کا دم نکال کے چائے کو خوشبودار بنا جائے۔

غفورا اپنی ماں کے کسی رشتے دار کی سفارش پر بائیس سال پہلے سپاہی بھرتی ہوا تھا۔ بزرگ محلے والوں کو شک تھا کہ اس کی ماں کا اپنے رشتے دار سے کوئی لینا دینا تھا ورنہ کون غفورے جیسے نالائق کو پولیس میں بھرتا کرتا۔ سب کا خیال تھا کہ غفورے میں کوئی لیاقت نہیں تھی۔ اب محلے والوں کو کون سمجھائے کہ پولیس میں بھرتی ہونے کے لئے لیاقت آخری شرط ہے۔ غفورے کی واحد لیاقت اس کی یادداشت تھی۔ اس کے پاس اپنی تو اپنی پنجاب پولیس کی بھی ساری خبریں ہوتی تھیں۔ حتیٰ کہ انگریز کے دور میں بھرتی ہونے والے تھانیداروں سپاہیوں اور افسروں کے شجرے تک بتا سکتا تھا۔ اب ایسے آدمی سے زوار شاہ کا شجرہ کیسے چھپا رہ سکتا تھا۔ شاہ جہان نے ایک چمکتے نئے پیالے میں چائے چھانی، ویفر کا بڑا پیکٹ کھولا اور اپنے بچپن کے دوست کے سامنے رکھ دیا۔ چائے کا خوشبو دار دھواں غفورے کے نتھنوں سے ہوتا ہوا اس کے دماغ کے ایک ایک سرکٹ تک پہنچا اور اس کی زبان زوار شاہ کا ماضی اور حال بتانے لگی۔

”کوٹلے کا سید ہے۔ سیدھا سا آدمی ہے۔ اپنے کام سے کام رکھنے والا۔ یوں سمجھو پولیس کے کاغذوں میں ایک گھامڑ پولیس والا ہے کیوں کہ نہ رشوت لیتا ہے اور نہ ہی افسروں کو خوش رکھ سکتا ہے۔ اس لئے آج تک ایک ہی رینک میں اٹکا ہوا ہے۔ تم دیکھنا اے ایس آئی ہی ریٹائر ہو گا۔ تنخواہ پر گزارہ کرنے والاٹھنڈا سا بندہ ہے“
غفورے نے زوار شاہ کی ساری زندگی کو چار پانچ جملوں کے کوزے میں بند کر کے ویفر چائے میں ڈبو دیا۔

مزید پڑھیں  محمد علی فریدی کا ایک منفرد انداز --نمی دا نم چہ منزل بود... عجب ہے حسن کی منزل عجب ہے عشق کا عالم

بابو فضل اپنے گھر کے آنگن میں داڑھی میں لگی مہندی کے سوکھنے کے کے ساتھ اپنی بیوی کے آنے کا انتظار کر رہا تھا جو زوار شاہ کے گھر اس کی بیوی کو ملنے کے بہانے معلومات لینے گئی تھی۔ اس سے پہلے کہ داڑھی میں مہندی کی پپٹریاں سوکھ کے گرتیں، اس کی بیوی گھر کے دروازے سے داخل ہوئی، برقعہ اتار کے چارپائی پر رکھا اور وضو بناتے ہوئے زوار شاہ کے گھر میں جو دیکھا اور محسو س کیا، وہ سب اپنے مجازی خدا کو بتا کر حقیقی خدا کو منانے جائے نماز پر کھڑی ہو گئی۔

عصر کی نماز کے بعد بابو فضل مسجد کے صحن میں اپنے جیسے نوکری اور زندگی سے ریٹائر بڈھوں کو بٹھائے اپنی جاسوسہ کی لائی ہوئی خفیہ معلومات گناہوں کی طرح پھیلا رہا تھا۔ ان بزرگ نما بڈھوں کے گھروں پر بہوئیں قابض ہو چکی تھیں اور انہوں نے اللہ کے گھر پر قبضہ کر رکھا تھا۔ ان کی زندگی کے آخری دن نمازیں پڑھتے اور امام مسجد میں نقص نکالتے گزر رہے تھے۔ آج کل زوار شاہ ان کا نیا ٹاپک تھا اس لئے امام مسجد ان کی عنائیتوں سے فی الحال محفوظ تھا۔

”لڑکے کا نام ابرار حسین ہے۔ میٹرک میں پڑھ رہا ہے۔ اس کے کمرے میں امام خمینی کی تصویر بھی دیکھ کے آئی ہے تمہاری بھابھی۔ لڑکی کالج جاتی ہے۔ جب تمہاری بھابھی ان کے گھرمیں داخل ہوئی تو لڑکی گملوں کو پانی دے رہی تھی۔ گھر میں پانچ گملے ہیں پانچ۔ سمجھ رہے ہو ناں پانچ“ بابو فضل نے پانچ کے ہندسے پرزور دیتے ہوئے کہا

”ہاں ہاں سب سمجھ آرہی ہے۔ پنجتن پاک کی نسبت سے ہر شیعہ کے گھر میں ہوتے ہیں پانچ گملے“ حاجی فیض محمد نے یقین سے کہا

”ابھی تک چھت پر علم کیوں نہیں لگایا اس نے؟ “ محمد خان عرضی نویس نے سب سے سوال کیا؟

”تقیہ کر رہا ہے یار۔ یہ لوگ جہاں جان کا خطرہ دیکھتے ہیں وہاں تقیہ کر کے اپنے مذہب سے ہی پھر جاتے ہیں۔ یہی بات ہے ناں صوفی؟ “ بابو فضل نے صوفی ہاشم کو بھی گفتگو میں شامل کرنے کے لئے سوال چھوڑا۔ صوفی ہاشم ان سب سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھا چندے کی کاپی کھولے اپنے حساب کتاب میں مصروف تھا

”اللہ جانے بابو صاحب مجھ گناہ گار کو کیا معلوم؟ میں تو یہ سوچ سوچ کے پریشان ہو رہا ہوں کہ مولوی ابراہیم اس سال تراویح پڑھائے گا یا پچھلے سال کی طرح بھاگ جائے گا؟ “ صوفی ہاشم نے اپنی کاپی پر کچھ لکھتے ہوئے وہیں سے جواب دیا

صوفی ہاشم عمر میں ان سب بڈھوں سے دو دو تین تین سال بڑا تھا اس لئے مسجد کا خزانچی تھا۔ اس کے ذمے مسجد کے لئے ماہوار چندہ جمع کرنا تھا۔ اس کا سارا مہینہ محلے کے ایک ایک دروازے اور ایک ایک دکان سے چندہ اکٹھا کرنے میں گزر جاتا تھا۔ اسے شیعہ سنی کی بحث سے کوئی غرض ہی نہیں تھی۔ وہ تو بس مسجد کو آباد دیکھنا چاہتا تھا۔ اس لئے مہینے میں ایک بار شہر کی غلہ منڈی کا چکر بھی لگا لیتا اور وہاں کے بڑے بڑے آڑھتیوں سے بھی چندہ لے آتا تھا۔ ایک بار تو کرسچن چرچ کے پادری سے بھی پانچ ہزارروپے لے آیا تھا۔ جس پر اس وقت کے امام مسجد یوسف صاحب نے فتوی دیا تھا کہ کفار کا چندہ مسجد کی تعمیر میں نہیں لگ سکتا۔ لیکن بات پانچ ہزار کی تھی۔ اس لئے مسجد کمیٹی اور امام صاحب نے درمیان کا راستہ نکالا کہ پادری کے چندے کو مسجد کی استنجا گاہ کی تعمیر میں لگایا جائے۔ صوفی ہاشم نے درمیان کا یہ راستہ دل سے قبول نہیں کیا کہنے کو تو اس نے وہ پانچ ہزار اسی جگہ لگائے جس کا مسجد کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا لیکن اصل میں اس نے پادری سے لئے ہوئے ہزار ہزار کے پانچ نوٹ امام صاحب کو اسی مہینے کی تنخواہ میں دے دیے تھے۔ شاید صوفی ہاشم کے سادہ سے ذہن اور امام مسجد کے گمبھیر علم میں استنجا گاہ کی اپنی اپنی تصویر اور تشریح تھی۔

اللہ بخشے امام یوسف کو جب وہ فوت ہوا تو محلے سے آٹھ دس لوگ جنازے میں شرکت کرنے اس کے گاؤں گئے تھے، جن میں صوفی ہاشم شامل نہیں تھا۔ لیکن فادر پرویز مسیح کے گزر جانے پر اس نے نہ صرف اس کی آخری رسومات میں شرکت کی بلکہ فادر کے ایصال ثواب کے لئے اپنے محبوب ترین ویسٹن جرمنی کے دو لالٹینوں میں سے ایک چرچ کو تحفے میں دے آیا تھا کہ یہاں جب بھی جلے گا فادر کی روح کو ثواب ہو گا۔

”صوفی یار یہاں اتنے اہم مسئلے پر بات ہو رہی ہے اور تم چھ مہینے بعد کا رمضان کھول کے بیٹھے ہو“ بابو فضل نے اپنی تازہ رنگی ہوئی داڑھی میں کھجلی کرتے ہوئے ناراضگی جتائی اور اٹھ کے چلا گیا۔ صوفی ہاشم نے اسے کوئی جواب دینے کی بجائے اپنی کاپی میں حساب کتاب لکھنے کے لئے گردن جھکا دی۔

جبار وکیل کے چھوٹے بیٹے ارشد نے کرایہ داروں کے رجسٹر کے ایک صفحے پر کالے کٹ مارکر سے زوار شاہ کا نام لکھنے کے بعد سوالیہ نظروں سے اپنے باپ کی طرف دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو کہ آگے کیا لکھوں؟

” اپریل کرایہ تین ہزار اور ایک مہینہ ایڈوانس ٹوٹل چھ ہزار۔ ذرا کمر بھی دبا دو۔ “ وکیل نے بسترپر الٹا لیٹتے ہوئے اسے حساب بتا یا

راشدنے جلدی جلدی ایڈوانس اور کرائے کے کالموں میں تین تین ہزار کے ہندسے لکھ کر باپ کی کمر پر پیر رکھ دیا

”اتنا بڑا اے ایس آئی تین ہزار کے چھوٹے سے گھر میں کیوں آپڑا ہے ابا؟ ابھی تک اس نے اپنا گھر کیوں نہیں بنایا“ راشد نے باپ کی کمر پر اپنی اپنے ایڑی کا زوردے کر پوچھا

”حلال خور ہے اس لئے در بدر خاک بسر ہے۔ حلال میں مکان کہاں بنتے ہیں بیٹا“ وکیل نے رٹا رٹایا جملہ پھینکا

”تو پھر ہمارے 17 کیسے بن گئے ابا“

بیٹے کا سوال سن کر ٹھیکے دار نے ایسی تیزی سے جسم کو پلٹایا کہ راشد پلنگ سے نیچے گر گیا

”دفع ہو جا بے غیرت سارے مہروں کو اپنی جگہ سے ہلا دیا“۔ راشد کپڑے جھاڑتا ہوا وہاں سے چلا گیا وہ نہیں سمجھ پایا کہ اسے مہرہ دبانے کی سزا ملی ہے یا اس نے باپ کی کسی دکھتی رگ پر ایڑی رکھ دی تھی۔

چوک میں پھٹے پر بیٹھے نکمے آسمانوں کے پار دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس پھٹے کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس پر اعلی پائے کے تاریخ دان، مذاہب عالم پر اتھارٹی سمجھے جانے والے علماء، عالمی اور ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے سیاستدان، امریکہ کی سازشوں کا پردہ چاک کرتے جاسوس، اخلاقیات کا درس دینے والے مدرس اور دین کی حفاظت کرنے والے مجاہدین ایک ساتھ بیٹھ کر دھواں اڑاتے تھے۔ ان کی سگریٹ نوشیاں اور سرگوشیاں نجانے کتنے رازوں کی امین تھیں۔ کبھی کبھی ان کے درمیان رائے کا اختلاف بھی ہو جاتا تھا اور نوبت لڑائی تک چلی جاتی تھی لیکن آج یہ سارے نکمے اس بات پر متفق تھے کہ زوار شاہ اصل میں پولیس کا جاسوس ہے جسے محلے میں پلانٹ کیا گیا ہے۔ اس کی غربت پاکبازی اور حلا ل خوری کا پروپیگنڈا اسی لئے پھیلایا گیا ہے کہ ہم اسے بے ضرر سمجھ کر نظر انداز کرتے رہیں اور وہ اندر ہی اندر جماعت اور اس کے ہمدردوں کی خبریں آگے بھیجتا رہے۔

ایک نے تو اسے ان دو یہودیوں سے تشبہیہ دے ڈالی جو نور الدین زنگی کے زمانے میں مسلمان بن کر مدینے میں سرنگ کھود رہے تھے۔ اور آقا نے نورالدین زنگی کے خواب میں آکر ان دونوں کی شکلیں دکھائی تھیں۔ اور اس کے بعد زنگی نے ان دونوں کا وہ حشر کیا کہ سارا اسرائیل کانپ گیا۔ اس لمحے سارے نکمے اپنے آپ کو نورالدین زنگی سمجھ کر ایسے تھر تھر کانپے کہ ان کے جلال کی تاب نہ لا کر پھٹے کا ایک پایا ٹوٹ گیا اس پر بیٹھے سارے اشراف اور اس کے نیچے لیٹا ایک لوسی کتا اس غیبی آفت کے لئے تیار نہیں تھے۔ ایک مجاہد کا سر پھٹا اور کتے کی دم زخمی ہو گئی اور وہ اسی دم کو دبا کے وہاں سے بھاگ

کھڑا ہوا۔ گالیاں بکتے سر پھٹے مجاہد کو ایک نکما موٹر سائیکل پر بٹھا کے ہسپتال روانہ ہو گیا اور باقی اینٹیں جمع کرنے کے لئے ادھر ادھر پھیل گئے تاکہ ٹوٹے پائے کے نیچے اینٹیں رکھ کر علم و حکمت کے اس مرکز کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کر سکیں۔
میری خود ساختہ قید کا آخری دن گزر گیا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے نہ مجھے بخار ہوا اور نہ ہی کوئی ایسی علامت ظاہر ہوئی جس سے اس وبا کی لپیٹ میں آنے کا شک ہو۔ میں نے کمرے سے باہر قدم رکھا

”نکل آئے وہمی کہیں کے“ لاونج میں بیٹھی بیوی نے مجھے دیکھتے ہی مسکرا کر تیر چلایا

میں نے اس کی مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے دیتے ہوئے دونوں بچوں کو آوازیں دیں۔ دونوں اپنے کمروں کی قید سے بجلی کی تیزی سے نکلے اور مجھ سے لپٹ گئے۔ سفیان کو چومتے ہی مجھے ایسے لگا جیسے میں نے اس کے گال پر نہیں انگارے پر ہونٹ رکھ دیے ہوں اس کا جسم بخار کی حدت سے دوزخ بنا ہوا تھا۔ مجھے اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی۔
سیدوں کے گھر کے باہردروازے کے ساتھ آنکھیں موندے کتا اچانک اٹھ کھڑا ہوا۔ اندر سے ابرارحسین ہاتھ میں ایک پرات لئے باہر نکلا اور اس دورازے کے ساتھ رکھے ٹھیکرے میں کھانا ڈالا۔ وہ جب تک اپنے اس کام میں لگا رہا کتا اس سے تھوڑے فاصلے پر کھڑا اپنی دم ہلاتا رہا۔ ابرار کے جانے کے بعد جب اندر سے زینب کی آواز آئی ”کھا لے“ تب ہی وہ ٹھیکرے کی طرف بڑھا۔ چپڑ چپڑ کی آواز بند گلی میں پھیل گئی۔ اس کتے کو گھر میں آنے کی اجازت نہیں تھی وہ سارا دن مالکوں کے دورازے پر پڑا سوتا رہتا تھا۔ اس نے اپنے ذمے صرف ایک کام لگا رکھا تھا۔ زینب کو اس کے کالج تک پہنچانا۔ وہ صبح آٹھ بچے اپنی کالی چادر کے پردے میں گھر سے باہر نکلتی اور یہ اس کے پیچھے پیچھے باڈی گارڈ بنا اسے کالج پہنچا آتا تھا اور جب تک وہ باہر نہ آتی یہ گیٹ کے باہر ایک درخت کے نیچے اپنی مالکن کی راہ دیکھتا رہتا تھا۔

یہ کوٹلے کی گلیوں کا ایک آوارہ کتا تھا۔ ایک شام زینب (جب اس کا پردہ نہیں ہوا تھا) کسی مجلس سے واپسی پر آل رسول پر ہوئے ظلموں پر آنسو بہاتی اکیلی آرہی تھی اس کتے نے اسے اکیلا اور کمزور جان کر پیچھے سے غرانا چاہا۔ اللہ جانے زینب اس وقت کس کیفیت میں تھی شاید اس کا جسم تو امام باڑے کی اس گلی میں تھا لیکن دل دماغ اور روح شام کے اس بازار میں بھٹک رہی تھی جہاں اپنے چہروں کو بالوں کے پردے میں چھپائے بیبیاں ننگے پیر چلائی گئی تھیں۔ کتے کی غراہٹ سنتے ہی وہ وجد میں آئی اور صرف اتنا کہا ”چپ کر کتے، سید زادی پر بھونک رہا ہے تو“ اس کے بعد یہ کتا بھونکنا ہی بھول گیا۔ زینب اپنے گھر کی طرف بڑھ گئی اور یہ سر جھکائے اس کے پیچھے پیچھے۔ وہ شام اور آج کا دن یہ زینیب کے در پر پڑا رہتا ہے اسی کی آواز پر اٹھتا بیٹھتا اورکھاتا پیتا تھا۔ نہ وہ کبھی ابرار کو سکول پہنچانے گیا اور نہ ہی زوار شاہ کے پیچھے تھانے کا چکر لگایا۔ اس نے تو اپنے سر پر صرف زینب کی ذمے داری لے رکھی تھی وہی اس کی مالکن تھی اور وہ اسی کا کتا۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد وہ دوبارہ اپنی جگہ پر آ کے لیٹ گیا۔

لاٹھی کے سہارے مشکل سے چلتاغلام عباس شاہ ہاتھ میں نیاز کا کٹورہ اٹھائے گلی میں داخل ہوا۔ کتے نے اس پر ایک نظر ڈالی اور اسے بے ضرر جان کے خاموشی سے اپنی جگہ پڑا رہا۔ بزرگ شاہ جی نے اپنی لاٹھی سے دروازے پر دستک ہوئی۔ ابرار باہر نکلا۔ غلام عباس شاہ نے اپنا تعارف کرا کے نیازسے بھرا کٹورہ ابرار کے ہاتھوں میں تھمایا اور برتن کے واپس آنے کا انتظار کرنے لگا۔ کٹورے کو خالی واپس پھیرنا سیدوں کے گھرانے کا دستور نہیں ہے لیکن اس وقت گھر میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا جس سے اس کٹورے کے خالی پیٹ کو بھرا جا سکتا۔ ماں کے ماتھے پر پریشانی کی شکنیں پھیلنے سے پہلے ہی زینب نے جلدی جلدی چولہے پر کڑھائی رکھی ابرار کو باہر جا کے شاہ جی کو کمپنی دینے کا حکم دیا۔ گلی میں کھڑے دونوں سیدوں نے مشکل سے پانچ منٹ ہی ادھر ادھر کی باتیں کی ہوں گی کہ اندر سے آنے والی سفید زیرے کی مہک نے ابرار کو بتا دیا کہ آٹے کا حلوہ تیار ہو چکا ہے۔ وہ دوبارہ اندر گیا اور بھرا کٹورہ لے کر باہر نکلا۔ نیاز کا بدلہ نیازمندی سے چکا دیا گیا۔

مزید پڑھیں  کالی شلوار

اسی رات کے آخری پہر میں جب سارے محلے کے مکین تو مکین کتے بھی سو رہے تھے پولیس نے محلے کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور سیدھا اس گھر پر چھاپہ مارا جہاں اورنگزیب فراری کی موجودگی کی اطلاع تھی۔ اگلے چند ہی لمحوں میں اپنے ماں باپ سے ملاقات کے لئے چوروں کی طرح آنے والا اورنگ زیب پولیس کے نرغے میں تھا۔ اورنگ زیب جماعت کا وہ مجاہد تھا جس نے اللہ کے حکم سے نہ صرف افغانستان میں روس سے جہاد کیا بلکہ پاکستان میں بھی کئی کافروں کو دوزخ کا راستہ دکھایا تھا۔ وہ اس سے پہلے بھی کئی بار اسی طرح اندھیروں میں اپنے گھر آچکا تھا لیکن کسی نے اس کی مخبری نہیں کی اس کو فراری کا لقب بھی اسی لئے دیا گیا تھا کہ وہ فراری موٹر کار کی رفتار جیسا مجاہد ہے جو کسی کے ہاتھ نہیں آتا۔ لیکن اس بار فراری دھر لیا گیا۔ اور شک کی آنکھیں زوار شاہ کی طرف اٹھیں۔

ان آنکھوں میں یقین کے ڈورے اس وقت پھیلے جب پھٹے پر بیٹھنے والے ایک نکمے نے گواہی دی کہ اس نے صبح غلام عباس شاہ کو زوار شاہ کے دروازے پر دیکھا تھا سارا محلہ منٹوں میں زوار شاہ اور عباس شاہ کے گٹھ جوڑ تک پہنچ گیا۔ اگلے غلام عباس شاہ کا اپنی بیگم کے ساتھ زواری کے لئے ایران جانا اس گٹھ جوڑ پر پکی مہر لگا گیا۔ سب کا خیال تھا کہ وہ محلے والوں کے سوالوں سے بچنے کے لئے ایران گیا ہے۔ جب کہ کچھ کا گمان تھا کہ وہ ایران نہیں، اپنی بیٹیوں کے پاس کراچی بھاگ گیا ہے اس نے جو کام کرنا تھا وہ کر دیا، اب واپس نہیں آئے گا۔ کسی نے زوار شاہ سے کچھ نہیں کہا، بس اندر ہی اندر گالیاں دیتے اور سلگتے رہے۔ زوار شاہ کے علاوہ سب کو معلوم تھا کہ یہ سلگنا کبھی نہ کبھی لاوا بن کر نکلے گا۔ حالانکہ اس بے چارے کا اس ساری کارروائی سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ لیکن زبانوں سے نکلی باتوں نے دلوں میں ایسی گرہیں ڈالی تھیں جو اب کسی کے دانتوں سے بھی نہیں کھلنی تھیں۔ چند مہینوں بعد فاسٹ ٹرائیل کورٹ نے اورنگ زیب فراری کو موت کی سزا سنا کر قلم توڑ دیا۔

عشا کی اذان ہوتے ہی ٹرانسفارمر ایک دھماکے سے پھٹا اور سارا محلہ اندھیرے میں ڈوب گیا۔ جب سے جبار وکیل کے سب سے بڑے بیٹے نے اپنے گھر میں اے سی لگوایا تھا 50 کے وی کے اس ٹرانسفارمر نے ہفتے میں ایک دن پھٹنا معمول بنا لیا تھا وہ بدبخت جب بھی اے سی چلاتا یہ ہانپتے کانپتے اللہ کو دم دے دیتا اور پھر اگلے دن واپڈا کے مسیحا آ کے اس لاش میں روح پھونکتے۔ کافی دیر تک صوفی ہاشم نے اندھیرے میں کانپتے ہاتھ چلانے کے بعد ماچس کی ڈبیا تلاش کی۔ اسے یقین تھا کہ اس دیری میں پہلی رکعت ضرور رہ جائے گی۔ اس نے جلدی جلدی اپنی ویسٹن جرمنی کی لالٹین روشن کی او ر مسجد کے لئے نکل پڑا۔

راستے بھر وہ یہی سوچتا رہا کہ آج وکیل کے بیٹے سے یہ بات ضرور کرے گا کہ خدا کے بندے نماز کے ٹائم تو اے سی نہ چلایا کرو بزرگ نمازیوں کو مسجد تک پہنچنے میں تکلیف ہوتی ہے۔ اب سب کے پاس ویسٹن جرمنی کی لالٹین تو ہوتی نہیں جو ان کے راستے روشن کرے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنی گلی سے نکلتا ایک سایہ اپنی پوری شدت کے ساتھ صوفی ہاشم کے ساتھ ٹکرایا۔ ویسٹن جرمنی کی لالٹین اس کے ہاتھ سے چوٹ کر دیوار سے ٹکرائی۔ چمنی چھناکے سے ٹوٹی اور اس کی لو ہوا کے ایک جھونکے سے بجھ گئی۔ یہ سایہ لمحوں میں صوفی ہاشم کی بوڑھی ہڈیوں کو روندتا وہاں سے غائب ہو گیا۔ چند منٹوں بعد صوفی ہاشم کی آوازوں پر لوگ وہاں پہنچے۔ ان کے ہاتھوں میں ٹارچوں کی روشنی سے گلی اتنی روشن ہو گئی کہ سب کی آنکھوں نے وہاں نہ صرف گندی نالی میں گرے صوفی ہاشم کو دیکھا بلکہ لال سرخ خون کے دائرے میں پڑی ابرار کی لاش بھی سب کو نظر آگئی۔ خون گندی نالی میں جانے سے پہلے جم چکا تھا اور صوفی ہاشم کی بہتی آنکھیں اپنے لالٹین کے ڈھانچے کو دیکھ رہی تھیں۔

”اوئے کوئی جھاڑو لاؤ۔ چمنی کے شیشے کسی بچے کے پیروں میں نہ لگ جائیں“ صوفی ہاشم نے روتے ہوئے کہا
سفیان کے ساتھ ساتھ ہم تینوں کے ٹیسٹ بھیکیے گئے جو نیگیٹو تو آئے لیکن سفیان میں کرونا کی ساری علامات بھی تھیں اور کا ٹیسٹ بھی پازیٹو نکلا۔ ڈاکٹروں نے اسے تو ہسپتال میں داخل کر لیا لیکن ہم تینوں کو اپنے گھر میں ایک بار پھر ایک دوسرے سے علیحدہ رہنے کا حکم دے کر جانے کی اجازت دے دی۔ میں یہ سوچ سوچ کے پاگل ہو رہا تھا کہ سفیان تو گھر سے نکلا ہی نہیں پھر ٹیسٹ پازیٹو کیوں نکلا۔ اس سے پہلے کہ اتھارٹیز کو خبر ہوتی اور ہمیں گھر میں قید کر کے اسے سیل کر دیا جاتا، میں نے ڈاکٹروں سے ہاتھ جوڑ کر التجا کی کہ مجھے ایک بار اس سے ملنے دیا جائے، مجھے اس سے کچھ پوچھنا ہے لیکن وہ راضی نہ ہوئے۔ ایک نرس کو میری حالت پر رحم آ گیا اور اس نے ڈاکٹر کے جانے کے بعد مجھے سفیان کے ساتھ دور سے بات کرنے کی اجازت دے دی۔

سفیان نے پہلے تو روتے روتے مجھ سے معافی مانگی اور بتایا کہ وہ کمرے میں تو بند تھا لیکن دو بار اسی کمرے کی وہ کھڑکی جو گلی کی طرف کھلتی ہے اس سے نکل کر اپنے ایک دوست سے گیم کی سی ڈی لینے گیا تھا۔ جو ہماری ہی کالونی کی پانچویں گلی میں رہتا ہے۔ گیم کا نام بھی اس نے بتایا ”ڈیتھ ٹریپ“۔ میں ایک ہی لمحے میں اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ وہ یہ وبا کہاں سے لایا ہے۔ میں نے فوراً اتھارٹیز کو اطلاع دی اور ایک گھنٹے کے اندر اندر ہماری کالونی کو سیل کر دیا گیا۔ ہمارے گھر کے ساتھ ساتھ گلی نمبر پانچ کا مکان نمبر 110 بھی سیل کر دیا گیا اور اس میں رہنے والوں کے ٹیسٹ شروع ہو گئے۔ اس گھر میں پاسپورٹ آفس میں کام کرنے والے کسی علمدار کاظمی کا گھر تھا۔ نام سے ظاہر ہے یہ آدمی کون تھا اور کہاں سے اس وبا کو لایا ہے۔
اپنے دروازے پر دستک سن کر گرمی کا ستایا دھوتی بنیان میں ملبوس سید جلتی موم بتی ہاتھ میں پکڑے گھر سے باہر نکلا

جی بیٹا؟ اس نے اپنے ملائم لہجے میں دستک دینے والے سے پوچھا

”شاہ صاحب کسی نے آپ کے بیٹے کو قتل کر دیا ہے لاش گلی میں پڑی ہے“ آنے والے نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیرکام کی بات بتائی اور وہاں سے بھاگ گیا تاکہ دوبارہ جائے وقوعہ پر پہنچ کر وہاں ہونے والی سرگوشیوں میں اپنا حصہ ڈال سکے

سید یہ خبر سن کر شل سا ہو گیا۔ موم بتی کا گرم گرم موم پگھل کے اس کے ہاتھ پر لکیریں بنا رہا تھا لیکن وہ موم کی حدت سے بے نیاز کسی خیال میں گم اپنے سامنے پھیلے اندھیرے میں کسی ایک جگہ ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہا تھا چند لمحوں بعد وہ اپنے خیال سے نکل کر حال میں آیا اور الٹے قدموں گھر میں داخل ہو گیا۔ دونوں سیدانیاں گلی کے سناٹے میں گونجنے والاجملہ سن چکی تھیں۔ زینب اپنی ماں کی گود میں سر چھپائے رو رہی تھی۔ سیدوں کا خون سے بہت پرانا رشتہ ہے۔ اس خبر نے ان کو اندر سے توڑ دیا تھا لیکن سید ہونے کا بھرم نہیں توڑ سکی۔ ان کے ماتم میں گریہ نہیں تھا، بین نہیں تھے، صرف سسکیاں تھیں۔ سید بوجھل قدموں سے اپنے کمرے کے اندھیرے میں گم ہو گیا اور چند لمحے بعد شلوار قمیض اور سر پر کالی پگڑی باندھے نکلا۔ وہ اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی دھوتی بنیان پہنے گلی میں جانے کا روادار نہیں تھا۔ وہ ایک پروقار چال چلتا گھر سے باہر نکلا۔ اور اس گلی کی طرف جانا شروع کیا جہاں اس کا ابرار کٹا پڑا تھا۔ اندر سے زینب کی آواز آئی ”تو بھی جا“ کتا جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھا اورپہلی بار ہمت کے اس پہاڑ کے پیچھے چل پڑا۔

زوار شاہ اندھیری گلیوں میں چلتا اس خونی گلی میں پہنچا جسے ٹارچوں اور گیس کے ہنڈوں نے روشن کر رکھا تھا۔ اس گلی میں اتنا اجالا تھا کہ ایک ایک آدمی کا چہرہ اور چھتوں پر کھڑی عورتیں تک نظر آرہی تھیں۔ گندے پانی میں بھیگا صوفی ہاشم ایک مکان کے آگے بنی سیڑھی پر اپنی لالٹین کا ڈھانچہ اور ٹوٹی عینک لئے بیٹھا تھا۔ اس نے ایک بار حسرت سے گیس کے جلتے ان ہنڈوں اور پھر اپنی بجھی لالٹین کو دیکھا اور اس کی آنکھیں چھلک اٹھیں۔ وہ سوچ رہا تھا آج اس کی لالٹین کی سب سے زیادہ ضرورت تھی اور آج ہی وہ بجھی ہوئی ہے۔ شاہ جی کے آنے پر تماشائیوں نے ایک ایک فٹ ادھر ادھر کھسک کر لاش اور اس کے وارث کے درمیان راستہ بنایا۔ شاہ جی اکڑوں بیٹھ کے اپنے ابرار کا چہرہ دیکھنے لگا اس کی نظر اس خون میں بھیگے اس بستے پر پڑی جسے کندھے پر ڈال کے وہ ٹیوشن پڑھنے نکلا تھا۔

صوفی ہاشم نے اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے وہ سب کچھ دہرایا جو اس اندھیری گلی میں ہوا تھا لیکن یوں لگ رہا تھا زوار شاہ کو اس کہانی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کی آنکھیں تواپنے سامنے خون میں لت پت پڑے ابرار کی کہانی کا اختتام پڑھ رہی تھیں۔ اچانک وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہوا ابرار کا بستہ اٹھا کے اپنے کندھے پر لٹکایا۔ تب تک ایک چارپائی بھی لائی جا چکی تھی زوار شاہ نے چارپائی پر ایک نظر ڈالی۔ ایک بار پھر ابرار کی طرف آیا۔ ایک لمبی سانس لے کر آسمان کی طرف دیکھا جیسے وہ آسمان والے کو اپنی فریاد سنا رہا ہو۔ اس کی دیکھا دیکھی زینب کے کتے نے آسمان میں نظریں گاڑ دیں۔ پھر شاہ جی نے اپنے دونوں بازوں پر اپنی عمر بھر کی کمائی اٹھائی اور گھر کی طرف چل پڑا۔ ابرار کے بستے سے خون کے قطرے سارا راستہ ٹپکتے رہے۔ پولیس نے قاتل کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن اس اندھے قتل کا سراغ نہ ملا۔ صوفی ہاشم نے اپنے لالٹین میں دوبارہ چمنی نہیں ڈلوائی اس کا کہنا تھا کہ آج کل چائنہ کی چمنیاں آ رہی ہیں اور میں اپنے ویسٹن جرمنی کے لالٹین میں دو نمبر چمنی لگا کے اسے داغدار نہیں کروں گا۔ ایک مہینے بعد زوار شاہ پینشن لے کر واپس اپنے آبائی گاؤں کوٹلے چلا گیا۔ جبار وکیل کے رجسٹر اور محلے داروں کے ذہن سے اس کا نام ہی مٹ گیا۔ سیدوں کا یہ گھرانہ صرف ایک آدمی کو مرتے دم تک نہیں بھولا، وہ جب بھی اپنی لالٹین کو یاد کرتا تو اس کے ساتھ سیدوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ بددعا ضرور کرتا کہ جس نے کوٹلے کے سید اور میرے ویسٹن جرمنی کے لالٹین کو توڑا ہے خدا اس کی قبر میں اندھیرا کرے۔ دس دن بعد صوفی ہاشم بھی اپنے خدا سے جا ملا۔ اس کے ایک پوتے نے شرارتاً لالٹین کا ڈھانچہ بھی اس کے ساتھ ہی دفنا دیا

سارے کاظمی خاندان کے ٹیسٹ نیگیٹو آئے ہیں ان میں سے کوئی بھی اس وبا سے متاثر نہیں ہوا۔ لیکن میرا پورا گھر اس وبا کی لپیٹ آ کر زمین میں گاڑ دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے سفیان، اس کے بعد میری بیوی اور پھرکومل۔ اور میں ابھی وینٹی لیٹر پر پڑا اپنی آخری سانسیں لے رہا ہوں۔ میرے پاس وقت بہت کم ہے لیکن تکلیف بہت زیادہ ہے مگر میں پھر بھی آپ کو اپنی کہانی سناؤں گا۔ کاظمی خاندان کے سارے ٹیسٹ کلیئر آنے کے بعد اچانک علمدار کاظمی کی بیٹے حیدر کو یاد آیا کہ جب سفیان اس کے گھر آیا تھا تو مٹھائی کے لالچ میں نانا کے کمرے میں بھی گیا تھا۔ حیدر کے بقول سفیان کی اس کے نانا سے بہت گہری دوستی تھی۔ نانا اب اپنے گاؤں جا چکے تھے۔ اتھارٹیز فوراً حرکت میں آئیں اور گاؤں کی طرف ٹیمیں دوڑائی گئیں جہاں حیدر کے نانا گئے تھے تاکہ اگر ان کو کرونا ہے وہاں کے لوگوں کو ان کے عذاب سے بچایا جائے۔

اگلے پانچ گھنٹے میں خبر ملی کہ حیدر کے نانا او ر زواری کر کے ایران سے آنے والے ابرار کے ابا سید زوار حسین شاہ بخاری کو کوٹلے میں ان کے گھر میں قرنطینہ کر دیا گیا ہے۔ وہی زوار شاہ جس کی مخبری پر میرے بھائی اورنگ زیب فراری کو پھانسی ہوئی تھی۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ مخبری شاہ جی نے نہیں، میرے بھائی کی جماعت ہی کے کسی آدمی نے کی تھی۔ میرا دم گھٹ رہا ہے، آنکھیں بند ہو رہی ہیں۔ ڈاکٹر مجھے انجکشن لگا رہا ہے اور میں وارڈ کے دروازے سے اندر آتے ابرار کو دیکھ رہا ہوں جس کے کندھے پر خون آلود بستہ ہے اس کے پیچھے مسکراتا ہوا صوفی ہاشم بھی آ رہا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ویسٹن جرمنی کی اسی لالٹین کا ڈھانچہ ہے جس کی چمنی میرے ٹکرانے سے ٹوٹی تھی۔

تحریر ::مصطفیٰ آفریدی

Similar Posts

Leave a Reply