ریاض میں ہونے والے اجلاس کے بہانے عرب-امریکا تعلقات میں جو گرمجوشی دیکھنے کو ملی، وہ سخت بے چین کرنے والی تھی۔ اس کی وجہ بھی جلد ہی منظر عام پر آ گئی یعنی بے چینی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی ہے۔
مجھ جیسے صحافت کے طالب علم اس وجہ سے خاصے تذبذب کا شکار تھے کہ ریاض اجلاس میں عربوں نے پاکستان، یا دوسرے لفظوں میں عجم، کو کیوں بری طرح نظر انداز کیا؟ لیکن اس عمل میں اللہ کی جانب سے جو حکمت و مصلیحت پوشیدہ تھی، اس سے اب سمجھ آ گئی ہے کہ ذات باری تعالیٰ نے پاکستان کو ایک بہت بڑی آزمائش اور فتنے سے فی الوقت محفوظ کرلیا ہے۔ لیکن مستقبل قریب میں خطرہ اب بھی موجود ہے جس کے تدارک کے لیے پاکستانی عوام، فوج اور حکومت کو ایک صفحے پر آنا ہوگا۔
گزشتہ دو دہائیوں سے ایران اور ایران نواز پڑوسی ریاستوں کے مقابلے میں سعودی عرب کا ایک نادیدہ جھکاؤ اسرائیل کی جانب رہا ہے۔ یہ بات اس ریاض اجلاس میں امریکی مداخلت اور پھر امریکی شہ پر اٹھائے گئے اقدامات سے کھل کر سامنے آچکی ہے۔ امریکی صدر کی ریاض اجلاس میں پرجوش شرکت، جو ان کا پہلا بین الاقوامی دورہ تھا، اور اس کے بعد ریاض سے تل ابیب روانگی کے لیے پہلی بار سعودی فضائی حدود استعمال محض اتفاق نہیں۔ پھر اسرائیلی زعماء اور وزیراعظم تک کے عرب بالخصوص سعودی عرب کے حوالے سے نرم اور مثبت بیانات عقل مندوں کے لیے واضح اشارہ ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے دل میں دبی ایک خواہش یوں زبان پر آئی کہ “مجھے امید ہے کہ ایک دن اسرائیلی وزیراعظم تل ابیب سے ریاض پرواز کر کے جا سکے گا۔ “یعنی جب عرب قطر کے زمینی و فضائی راستے بند کرنے کی باتیں کر رہے تھے تو یہ مسلمان و انسانیت دشمن ریاض اور تل ابیب کے درمیان امن و دوستی کی شمعیں روشن کر رہا تھا۔
سعودی عرب کی شہ پر مصر، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے قطر کا مشترکہ بائیکاٹ کیا جبکہ ایران کی قطر کو مکمل مدد اور حمایت نے خطے میں بڑھتے انتشار و خلفشار کی منظر کشی کی ہے۔ یہاں ایک بات واضح ہو رہی ہے کہ سعودی عرب نے امت واحدہ کا نظریہ رد کر کے نسلی و مسلکی نظریے کو پروان چڑھانے کی خاطر دشمن کے دشمن کو دوست سمجھ اور مان لیا ہے۔ خاص کر جب امریکا کی مکمل پردہ درپردہ حمایت میں بھی کوئی شک نہیں رہ گیا۔اس خیال کو تب مزید تقویت پہنچی جب اسرائیل کے مقبوضہ عرب علاقوں میں سالگرہ نما جشن کے موقع پر سابق اسرائیلی وزیر دفاع اور معروف سیاست دان موشے یالون نے کہا کہ ” قطر کے علاوہ زیادہ تر عرب ریاستیں اور ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں کیونکہ ہم سب ایٹمی ایران کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ ” اور اسی طرح عرب ممالک کی جانب سے قطر کے مقاطعے پر اسرائیلی وزیر دفاع لائبرمین کا تبصرہ تھا کہ “یہ بحران اسرائیل اور “چند” عرب ریاستوں کے درمیان تعاون کے مواقع لے کر آیا ہے ” جبکہ اسرائیل کے ڈپٹی منسٹر برائے سفارتکاری مائیکل اورین نے اپنے ٹویٹر پیغام میں دعویٰ کیا کہ “مشرقِ وسطیٰ کی ریت پر نئی لکیر کھنچ گئی ہے۔ ”
یہ اسرائیلی زعماء کے بیانات مختصر مگر جامع تبصروں اور مقاصد کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اگر کوئی سمجھنا چاہے اور عربوں کی پراسرار خاموشی کے ساتھ ساتھ امریکی مداخلت اس پر مہر ثبت کررہی ہے کہ ایران کے خلاف بہت جلد عرب اسرائیل اتحاد قائم ہونے والا ہے۔ خواہ اس اتحاد کی حدود و قیود مشروط ہی کیوں نہ ہوں، خواہ وہ اتحاد پوشیدہ سفارتی ذرائع پر ہی کیوں مشتمل نہ ہو مگر ایسا ممکن ہے۔
سعودی گزٹ و دیگر “غیر جانبدار” ذرائع ابلاغ اور حکومتی ترجمان و اہل کار جو اسلامی سمٹ اور امریکی دوستی کی تجدید سے پہلے کسی بھی اسرائیلی بیان پر کچھ نہ کچھ ڈھکے چھپے انداز میں تردید یا تنقید کردیا کرتے تھے، اب بالکل خاموش ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ دال میں کالا نہیں بلکہ پوری دال کالی ہے۔
سعودی عرب نے قطر سے بائیکاٹ کے لیے جو الزامات عائد کیے ہیں وہ بھی سراسر خطے میں براہ راست اسرائیلی و امریکی مفادات کے تحفظ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جیسے اخوان المسلمین اور حماس جیسی اسرائیل مخالف تنظیموں کی پشت پناہی کی آڑ میں دہشت گردوں کی عملاً معاونت پر الزامات کی فہرست میں سعودی اعتراض سب سے اوپر ہے۔
ٹرمپ کے سعودی دورہ خاص سے تل ابیب پرواز کے بعد امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کی وہ رپورٹ جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب سمیت بحرین، مصراورعرب امارات کے سربراہان نے ایک مشترکہ تجاویز پر مشتمل لائحہ عمل ٹرمپ کے ساتھ طے کیا ہے جس میں وہ یعنی عرب ریاستیں اسرائیل کو مشروط سفارتی تعلقات کے ساتھ قبول کرنے کو تیار ہیں۔ یہ ساری باتیں اس بات کو تقویت دیتی ہیں کہ “کہیں پہ نگاہیں، کہیں پر نشانہ” کے مصداق قطر بائیکاٹ کی آڑ میں سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستیں اسرائیلی اور امریکی خوشنودی و مدد حاصل کر کے ایران کے خلاف حتمی جنگ چھیڑنے کے فراق میں ہیں۔
یہ سب باتیں اور منصوبے کوئی راتوں رات تیار نہیں ہوئے بلکہ یمن-سعودی تنازع کے آغاز اور بعد میں حوثی باغیوں کی ایرانی و قطری پشت پناہی نے سعودی عرب و دیگر سعودی نواز ریاستوں کو مل بیٹھ کر یہ کرنے پر مجبور کیا۔ چونکہ یمن جنگ میں پاکستان نے سعودی عرب کو فقط ثالثی کردار ادا کرنے کے علاوہ اور سارے معاملات سے ہاتھ کھینچ لیا تھا، تو اسی کا غصہ ریاض اجلاس میں پاکستان کو ہر معاملے میں پیچھے رکھ ر اتارا گیا اور دوسری بڑی وجہ پاکستان کی وہ متوقع شدید مخالفت ہو سکتی تھی جو عرب-اسرائیل اتحاد کو بھانپ کر پاکستان نے کرنی تھی۔ اس لیے اجلاس میں نظر انداز کیا جانا پاکستان کے حق میں بہتر تھا کہ پاکستان ہی وہ ریاست ہے جو دجال کے عظیم فتنے کے دور میں جنگی و اخلاقی مدد دے گی اور معرکہ عظیم لڑے گی۔
البتہ خطے میں عرب خارجہ پالیسی کا یہ ‘یوٹرن’ بہت ہی خطرناک نتائج لے کر آئے گا۔ ہمیں اس انارکی اور انتشار کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے جس کی بدولت پہلے مصر، لیبیا، شام، اور عراق کی عوام اور حکومت کو غیر مستحکم کر کے امریکی اجارہ داری قائم کی گئی ہے اور اب وہ صرف کٹھ پتلی کا کردار ادا کرہے ہیں۔ امریکا اور اسرائیل کے نزدیک اصل نشانہ ایران نہیں بلکہ سعودی عرب اور حجاز مقدس ہے، مگر وہ دونوں اپنی نگاہیں ایران کی طرف دکھا کر سعودی عرب کو لپیٹے میں لے رہے ہیں تاکہ وہ ان کے اصل مقاصد تک رسائی حاصل نہ کرسکے اور یہ خاموشی سے “گریٹر اسرائیل” کا اپنا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کی طرف بڑھ سکیں۔ جب سعودی عرب کا وجود نہیں ہوگا تب ایران اور پاکستان کو جنگ میں کھینچنا ذرا مشکل یا ناممکن نہیں ہوگا۔
اللہ سعودی عرب کو ہوش کے ناخن دے اور پاکستان کو ایسی آزمائش سے دور رکھے جو سراسر فتنہ ہے۔ بے شک پاکستان کو مصالحت اور امن کے لیے کوشاں رہنا چاہیے، خواہ اس کی قیمت کچھ بھی چکانی پڑے۔
بلال شوکت آزاد