|

ارکانِ پارلیمنٹ کی ’جعلی‘ فہرست میں ادارہ ملوث نہیں : آئی بی چیف

پاکستان کی نامور سیکیورٹی ایجنسی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے سربراہ آفتاب سلطان نے کہا ہے کہ دہشت گردوں سے مبینہ تعلق رکھنے کے حوالے سے میڈیا میں چلنے والی 37 ارکانِ پارلیمنٹ کی جعلی فہرست کے معاملے میں ادارے کا ہاتھ نہیں ہے۔
ڈان سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے آئی بی کے سربراہ آفتاب شیخ کا کہنا تھا کہ ہم نے ارکانِ پارلیمنٹ کے حوالے سے جعلی فہرست بنانے اور اسے لیک کرنے کے حوالے سے مکمل طور پر انکوائری کی جس کے مطابق ادارے کا کوئی بھی فرد اس فہرست کو مرتب کرنے اور اسے لیک کرنے کا ذمہ دار نہیں پایا گیا۔
جب اس سے سوال کیا گیا کہ آئی بی ذمہ داران کو پکڑنے کے لیے تحقیقات کا حصہ کیوں نہیں ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ آئی بی نے محکمے کی سطح پر اس کی تحقیقات کر لیں ہیں چونکہ آئی بی خود اس کیس کا حصہ ہے لہٰذا اس کیس کی مزید تحقیقات پولیس کی جانب سے کی جائیں گی۔
آئی بی چیف کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کا ادارہ پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے ساتھ مل کر اے آر وائی نیوز کے خلاف بھی کیس کی پیروی کر رہا ہے جس نے ارکانِ پارلیمنٹ کی فہرست نشر کی۔
گذشتہ ہفتے آئی بی نے پاکستان پینل کوڈ کی مختلف دفعات کے تحت آئی بی کے نام سے جعلی فہرست منسوب کرنے پر نامعلوم افراد اور اے آر وائی نیوز چینل کے خلاف مقدمہ درج کروایا گیا تھا۔
درخواست گزار نے آئی بی کے جعلی لیٹر ہیڈ پر جعلی دستاویز بنانے والے کے خلاف کارروائی کی استدعا کی ہے، جبکہ ادارے کا کہنا ہے کہ نجی چینل پر جعلی فہرست نشر ہونے کی وجہ سے ارکانِ پارلیمنٹ اور حساس ادارے کے درمیان تنازع پیدا ہوگیا۔
خیال رہے کہ اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’پاور پلے‘ میں آئی بی سے منسوب 37 ارکان پارلیمنٹ کی ایک فہرست نشر کی گئی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے آئی بی کو رواں سال 10 جولائی کو چند اراکین اسمبلی پر مبینہ طور پر دہشت گردوں کے ساتھ روابط ہونے کے شبے میں نظر رکھنے کی ہدایت کی تھی، جن میں زیادہ تر ارکان کا تعلق حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) سے ہے۔
وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیرزادہ کی جانب سے یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھایا گیا جس کے بعد وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے اس فہرست کو ’جعلی‘ قرار دیتے ہوئے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات کا حکم دے دیا تھا۔
ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے اے آر وائی نیوز چینل کے پروگرام ’پاور پلے‘ کے میزبان ارشد شریف کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے پروگرام میں اس فہرست کو نشر کرنے سے قبل تین مرتبہ وزیر اعظم ہاؤس اور صحافتی ذرائع سے کراس چیک کروایا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کے معاملات ماضی میں ہوتے رہے ہیں جب حکومت ابتداء میں اس طرح کی خبر کی تردید کرتی ہے اور بھر حقائق سامنے آنے کے بعد اپنا موقف بدل لیتی ہے۔
اپنی رپورٹ کے حوالے سے انہوں نے سوال کیا کہ آئی بی کے سربراہ نے ادارے میں موجود اس شخص کو گرفتار کر لیا ہے جو ان کے جعلی دستخط کرنے میں ملوث تھا۔
اینکر پرسن ارشد شریف نے کہا کہ اس معاملے میں آئی بی کے پاس ایف آئی آر درج کرانے کا جواز موجود نہیں تھا جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو بھی اس معاملے مین ایک ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
اسلام آباد کی سیکریٹیریٹ پولیس اسٹیشن نے آئی بی کے کسی اہلکار یا پھر ارشد شریف کو اب تک طلب نہیں کیا ہے تاہم اینکر پرسن نے شکایت درج کرائی ہے کہ انہیں دباؤ میں لیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں   تنخواہ دار اور غیرتنخواہ دار طبقے کی ٹیکس کی حدیں برابر  کی جائیںعالمی بینک 

یہ خبر 11 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

Similar Posts

Leave a Reply