دنیا‘ اپنے اندر گوناگونیت رکھتا ہے، ارتقا کی نہ جانے کتنی منزلیں طے کرچکا ہے
ہمارے آبا ؤ اجداد کہ جن پر سے وہ ارتقائی زمانے گزرے، اُن کی تکالیف اور درد کو وہ ہی بہتر جانتے ہوں گے کیونکہ ہم نے جب آنکھ کھولی تو ہمیں بہت کچھ بنا بنایا ہی حاصل ہوگیا
ہم نے گنوایا بھی بہت کچھ ہے، ظاہر ہے ہم انسان جو ٹھہرے! سہل پسندی اور آگے بڑھنے کا جوش ہمارے رگوں میں بہتا ہے۔
ہم نے ریلوے کی پٹریاں عبور کرکے پرائمری اسکول سبز علی بروہی پہنچے جہاں کے ہیڈ ماسٹر شوکت علی بروہی ہمارے منتظر تھے۔
ماسٹر صاحب نے بتایا کہ، ’یہاں کی 3 چیزیں بہت مشہور تھیں۔ یہاں کا مصروف
ریلوے اسٹیشن، بالوشاہی اور آٹے پیسنے کی شاہی چکیاں، مگر اب ریلوے اسٹیشن
کو پالیسیوں اور پکے راستوں نے لوٹ لیا، جس کی وجہ سے بیچاری مصروفیت روٹھ
کر کہیں چلی گئی ہے۔ جبکہ چَکی بنانے والے بھی اب انگلیوں پر گننے جتنے چند
کاریگر رہ گئے ہیں البتہ بالو شاہی اب بھی مشہور ہیں۔ ‘شوکت علی بروہی نے
جب بالوشاہی کا ذکر کیا تو لفظوں میں بالوشاہی کی شیرینی بھی گُھل گئی۔
’تو چکیاں اب بھی یہاں بنتی ہیں؟‘
ہاں ایک دو چھاپرے رہ گئے ہیں، جہاں اب بھی چکیاں بنتی ہیں، لیکن جب ریلوے
اسٹیشن کا عروج تھا اور گاڑیاں یہاں رُکتی تھیں تب یہاں کی بنی ہوئی چکیاں
پاکستان کے دور دراز علاقوں میں جاتی تھیں۔‘
مجھے پتہ نہیں چل سکا کہ اس جگہ سے ’شاہی‘ کا لفظ کیوں جڑا ہوا ہے؟
کچھ نہ کچھ تو ضرور ہوگا مگر میرا زیادہ دھیان بالُوشاہی کی خستگی پر رہا،
میٹھی اور ذائقہ دار بالوشاہی کے دور کے بعد ہم ’شاہی چکیاں‘ دیکھنے کے لیے
اسکول سے نکل پڑے۔ ہم جب اُس چھاپرے کے نزدیک پہنچے تو پتھروں کو تراشنے
کی تیز آواز ہمارے کانوں تک پہنچی
ان کے سر کے بال اور ہاتھ پیلے پتھر کی گرد سے اٹے ہوئے تھے۔ ان سنگتراشوں
نے ہمیں ایک پل کے لیے دیکھا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔ کافی دیر
بعد کے اس بےرُخی کی وجہ سمجھ میں آئی۔ تاج محمد خاصخیلی نے شکایتی لہجے
میں کہا، ’سائیں یہاں بہت میڈیا والے آتے ہیں، فلم بناتے ہیں، فوٹو نکالتے
ہیں مگر ہوتا تو کچھ بھی نہیں ہے! پھر فائدہ کیا؟ روزگار نہیں ہے ورنہ یہ
کام ہم کبھی نہیں کرتے۔ بس مجبوری میں کر رہے ہیں۔ بچوں کو تو پڑھانا چاہتے
ہیں لیکن گھر کا آٹا ہی بمشکل ہی پورا ہوپاتا بچوں کو اسکول کیسے بھیجیں۔
سال میں 2 عیدیں آتی ہیں اگر ان میں سے ایک عید پر بھی بچوں کو نئے کپڑے مل
جائیں تو بڑی بات ہے ورنہ نیلامی کپڑے لے کر گزارا کرتے ہیں۔ یہ فوٹو
نکالنے والے ہمارے فوٹو نکال کر خود جاکر پیسے کماتے ہیں۔ ہم کوئی سرکس کے
جانور ہیں کیا؟
یہ کہتے کہتے اُس کی کمزور آنکھوں میں نمی اترنے اور آواز بھاری ہونے لگی
تھی۔ الفاظ ٹوٹنے لگے کچھ لمحوں کے لیے پتھر پر کوئی چوٹ نہیں پڑی، تمام
سنگتراش اور ہم خاموش تھے۔
محمد انور نے بتایا کہ،’میں 40 برس کا ہوں اس پتھر کی وجہ سے میری شادی
نہیں ہوپائی، میں ٹی بی مریض ہوں‘۔ پھیپھڑوں کو خوراک کی صورت میں پروٹین
ملنا چاہیے جو نہیں مل رہا بلکہ پھیپھڑوں کو نتھنوں کے ذریعے پتھر سے
اُٹھتی ہوئی دھُول مل رہی ہے!
اب اس چھپرے پر 10 مزدور رہ گئے ہیں جو اس تیز دھوپ میں آٹا پیسنے کی
مشینوں کے لیے بڑی چکیاں، اُکھلی، بیلن، ہتھ چکی اور دیگر پتھر سے بننے
والی اشیاء بناتے ہیں
یہ بستی اُس طویل سفر کا شاید آخری پڑاؤ ہے اور جنگشاہی اس ہنر کے زوال کی
ایک چھوٹی سی بستی بن کر رہ گیا ہے۔ جہاں درد اور تکلیف کی کھاردار جھاڑیاں
ہی اُگتی ہیں۔ آئیے تاریخ کے صفحات الٹتے ہیں اور چکی کے ارتقائی سفر کو
جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ بستی اُس طویل سفر کا شاید آخری پڑاؤ ہے اور جنگشاہی اس ہنر کے زوال کی
ایک چھوٹی سی بستی بن کر رہ گیا ہے۔ جہاں درد اور تکلیف کی کھاردار جھاڑیاں
ہی اُگتی ہیں۔ آئیے تاریخ کے صفحات الٹتے ہیں اور چکی کے ارتقائی سفر کو
جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہم جب وادئ سندھ کی تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں۔ تو ’رگ وید‘ میں ہمیں
’روٹی‘ کے ذکر کے ساتھ اُس زمانے میں اُگنے والی فصلوں کے متعلق بھی
معلومات مل جاتی ہے۔ بھیرومل مہر چند لکھتے ہیں، ’رگ وید میں ’گودھرم‘
(گندم) اور ’ورھی‘ (چاول) کا ذکر نہیں ملتا۔ مگر ’دھانیہ‘ کا لفظ استعمال
ہوا ہے جس میں ہر قسم کے اناج کا ذکر آجاتا ہے، مگر ’مونگ‘، ’تِلِ‘ اور
’جو‘ کا ذکر ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ، تلُوں اور جو کی فصلیں شاندار ہوتی
تھیں۔ رگ وید میں ’جو‘ کا ذکر زیادہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ، وہ جو کی
روٹی اور مونگ کی دال سے اپنی بھوک مٹاتے ہوں گے۔ مونگ کی اُبلی ہوئی دال
کو ’مدگ اُدن‘ کہا جاتا تھا۔‘
آٹے پیسنے کا کام اکثر فجر کے وقت کیا جاتا اور یہ روایت تقریباً ہر جگہ اس
طرح برقرار تھی کیونکہ آٹے کا پیسنا ضروری ہوتا اور گھر میں کتنے لوگ ہیں
اور مہمان کا ذہن میں رکھ کر آٹا پیسا جاتا۔ علی الصبح چکی پیسنے کی ایک
بڑی وجہ بھی تھی، دراصل صبح سویرے آرام کے بعد انسان کا جسم توانا ہوتا ہے،
رات کا آخری پہر ٹھنڈا ہوتا ہے اس لیے چکی پیسنے والے کو زیادہ گرمی اور
تھکان نہیں ہوتی۔ ہر طرف خاموشی ہوتی ہے اور چکی کے چلنے کا اپنا ایک ردھم
ہوتا ہے جو آپ کے ذہن کو ایک تراوٹ بخشتا ہے۔ اورشاید یہ سب کچھ اس لیے بھی
اچھا لگتا ہو کہ رات کے اختتام کی کس کو خوشی نہیں ہوتی اور چکی کی یہ
آواز رات کے اختتام کا جیسے اعلان ہوتی۔
چکی پیسنے کا کام زیادہ تر عورتیں ہی کرتی تھیں، خواتین کو فن اور تخلیقی
کام پسند ہوتے ہیں شاید اسی لیے مٹی کی بنائی ہوئی چاردیواری (سندھی میں اس
کو ’تھار‘ کہتے ہیں، جس میں آٹا پسنے کے بعد جمع ہوتا رہتا ہے) پر مٹی سے
مختلف اشکال بھی بنائی جانے لگیں۔
چپن میں جب کبھی کبھار گاؤں جانا ہوتا تب گھروں میں نصب خوبصورت چکیاں بھی
دیکھنے کو ملتیں۔ اُن پر مٹی سے مور، چڑیاں، تارے، پھول پتیاں اور مختلف
نقوش بنے ہوتے تھے بالکل ایسے جیسے آجکل کڑھی ہوئی چادروں اور تکیوں پر
بنائے جاتے ہیں۔ چکی ہمارے گھر اور ثقافت کا ایک اہم جُز بھی بن گئی تھی،
یہی وجہ ہے کہ چکی پر لوک گیت بھی تخلیق ہوئے اور شاعروں نے اسے اپنا موضوع
بنایا۔
کبیرداس نے تو بڑا محترم جانا چکی کو، کہتے ہیں:
دنیا بڑی بانوری، پتھر پوجن جائے
گھر کی چکی کوئی نہ پوجے، جس کا پیسا کھائے
پتھر پوجے ہری ملے تو میں پُوجوں پہار
تا سے یہ چکّی بھلی، پیس کھائے سنسار
میں نے جس وقت جنگ شاہی کو الوداع کہا اُس وقت شام ہوچکی تھی اور میں پسینے میں شرابور تھا۔ جنگشاہی اس ہنر کے زوال کی ایک چھوٹی سی بستی بن کر رہ گیا ہے کہ اس چکی کے ہنر کی ابتدا بھی چھوٹی چھوٹی بستیوں میں سے ہوئی تھی۔ کتنی عجیب مشابہت ہے ابتدا اور انتہا میں۔ جہاں سفر کی ابتدا گھاس پھوس کی بستیوں سے ہوئی اور 20 صدیاں گزرنے کے بعد جب اس کا زوال آیا تو وہ بھی گھاس پھوس کے چھپرے میں! دنیا ترقی کرتی آگے چلی گئی اور یہ سنگتراش اس ترقی کے قافلے میں پیچھے رہ گئے۔ شاید وہ اپنے درد اور تکلیفوں کے چبھے ہوئے کانٹوں کو نکال رہے ہوں گے اور جب اوپر دیکھا ہوگا تو قافلہ کب کا جا چکا ہوگا۔ اب یہ بے آب و گیاہ زندگی کے ریگستانوں میں رہتے ہیں اور کسی معجزے کا انتظار کرتے ہیں۔