|

دماغ اور کمپیوٹر کا براہ راست ملاپ– حماد علی شاہ

ارب پتی اور جنونی موجد ایلون مسک کا نام اب کسی تعارف کا محتاج نہیں رہا۔ وہ اسٹارلنک انٹرنیٹ سیٹلائٹ کی کھیپ کے ذریعے دنیا بھر میں انٹرنیٹ کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ ٹیسلا کاروں پر کام کررہے ہیں۔ اپنے راکٹ کے ذریعے خلانوردوں کو مدار میں پہنچا چکے ہیں۔ بورنگ کمپنی کے ذریعے زیرِ زمین ٹریفک چلانا چاہتے ہیں، شمسی توانائی کے شہروں پر کام کررہے ہیں۔ اور اب انہوں نے دماغ سے کمپیوٹر چپ جوڑنے میں اہم کامیابی حاصل کی ہے۔

سائنس فکشن فلموں میں کمپیوٹر، دماغی روابط ( برین مشین انٹرفیس) پر بہت کچھ دکھایا جاچکا ہے۔ سائنس فکشن ناولوں میں بھی سائبورگ مخلوق کے حوالے ملتے ہیں جو نصف انسان اور جزوی مشین پر مشتمل ہوتے ہیں۔ لیکن اس ضمن میں عشروں کی تحقیق کے باوجود بھی قابلِ قدر کامیابی نہیں مل سکی اور دماغ جیسی پیچیدہ شے سے الیکٹرانکس کو جوڑنے میں کوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔

ایلون مسک کی کمپنی نیورالنک کئی برس سے انسانی دماغ میں مائیکروچپ نصب کرکے انہیں دماغی اور جسمانی امراض کے علاج میں مدد دینے پر کام کررہی ہے۔ اس ضمن میں ایلون مسک نے 28 اگست کو ایک اہم پریس کانفرنس میں اپنے کام کی تفصیلات پیش کیں اور بتایا کہ نیورالنک کے ذریعے وہ ایک جانب تو دماغ، حرام مغز اور انسانی اعصاب سے وابستہ امراض کا علاج کرنا چاہتے تو دوسری جانب وہ انقلابی چپ کی بدولت انسانوں میں نابینا پن، نسیان، سماعت میں کمی، فالج، لقوہ، بے خوابی، نیند میں کمی، بری عادات، دماغی چوٹ، معذوری اور ڈپریشن کو دور کرنے کے خواہاں ہیں۔ ایلون نے بتایا کہ ان کی چپ دماغی پیوند کے طور پر کام کرتی ہے۔

مزید پڑھیں  پنجاب حکومت کا ’’ محنتی افسر‘‘ دوسروں کو پھنسوادے گا یا بچالے گا؟

انہوں نے بتایا کہ دماغ سے جڑنے والی روایتی چپ یا پیوند میں چینل کی کمی ہے، بڑے تاروں کو دماغ سے باہر ایک ڈبے میں رکھنا پڑتا ہے اور اس کےلیے خاص ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔

ایک ہفتے قبل انہوں نے ماڈل کے طور پر خنزیر کے بچے کے کان کے نیچے کمپیوٹر چپ نصب کرنے کا عملی مظاہرہ کیا۔ تفصیلات کے مطابق اس چپ کے ایک لنک میں 1024 چینل موجود ہیں۔ اس چپ میں چھ رخی سینسر ہے جو دباؤ اور درجہ حرارت کو نوٹ کرتا ہے۔ اس کا ڈیٹا ریٹ میگا بٹ میں ہے اور وہ بھی وائرلیس کے ذریعے حاصل ہوتا ہے جبکہ بیٹری پورا دن کام کرتی رہتی ہے ۔ اسے رات کے وقت وائرلیس کے ذریعے چارج کیا جاسکتا ہے۔
چپ کی تنصیب:

یہ چپ ایک خودکار روبوٹ یا مشین کے ذریعے لگائی جاسکتی ہے۔ مشین اس میں انسان کے دماغ کے اندر برقیرے یا الیکٹران لگاتی ہے۔ یہ عمل خودکارطریقے سےنہایت درستگی کے ساتھ ہوتا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہےکہ چپ یا پیوند کی تنصیب میں صرف ایک گھنٹہ لگتا ہے اور اس کے بعد انسان بالکل معمول کے تحت محسوس کرنے لگتا ہے۔ اگلے ہی دن مریض اسپتال سے گھر جاسکتا ہے ۔ چپ کی موٹائی صرف 8 ملی میٹر ہے جبکہ انسانی کھوپڑی کی موٹائی دس ملی میٹر تک ہوتی ہے ۔ اسی وجہ سے سکے کی جسامت کی یہ چپ اچھی طرح فٹ ہوجاتی ہے اور اوپر بال سے چھپ جاتی ہے۔

مزید پڑھیں  وبائیں عذاب نہیں ہوتیں

سرجیکل روبوٹ:

ایلون مسک نے سرجیکل روبوٹ کا تذکرہ بھی کیا جو انسانی دماغ میں چپ لگانے کا سارا عمل ازخود انجام دیتا ہے۔ اس میں مریض کو بے ہوش کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ سرجیکل روبوٹ سر میں سوراخ کرنے، الیکٹروڈ (برقیرے) لگانے، چپ کو بٹھانے اور دیگر تمام امور انجام دیتا ہے۔ ایلون مسک نے بتایا کہ اگر الیکٹروڈ کو درست انداز میں لگایا جائے تو کسی قسم کا خون نہیں بہتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ الیکٹروڈ بہت باریک ہیں اور بہت ہی احتیاط اور نفاست سے لگائے گئے ہیں۔

اس دوران روبوٹ دماغ کی تصویر کشی کرتا رہتا ہے اور یوں خون کی باریک نالیوں سے اجتناب کرتے ہوئے الیکٹروڈ نصب کیے جاتے ہیں۔ ایلون نے اپنی کانفرنس میں یہ بھی بتایا کہ اس نے کس طرح پہلے ایک مادہ خنزیر میں دماغی پیوند لگایا اوراسے نکال دیا تاکہ پیوند لگانے اور نکالنے کا عملی مظاہرہ بھی کیا جاسکے۔ اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ نیورالنک چپ نکال کر اس کا نیا ماڈل بھی نصب کروایا جاسکتا ہے۔

اس تجربے میں خنزیروں کو اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ وہ اپنی فعلیات اور جینیات میں انسان سے بہت قریب ہوتے ہیں۔

اس کے بعد ایلون مسک نے خنزیر کے ایک بچے کی ویڈیو دکھائی جس میں نیورالنک چپ نصب تھی اور اس کے دماغی سگنل فوری وقت (ریئل ٹائم) میں اسکرین پر نمودار ہورہے تھے۔ خنزیر اپنی تھوتھنی سے جو کچھ محسوس کررہا تھا اس کے نیوران (اعصابی خلیات) کی تفصیل چپ تک پہنچ رہی تھی اور ڈسپلے ظاہر ہورہی تھی۔ ایلون کے مطابق اس جانور پر نیورالنک چپ لگائے دو ماہ ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح ایک جانور پر دو چپ بھی لگائی جاسکتی ہیں اور ان سے مختلف کام لئے جاسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں  عالمی درجہ حرارت کو معمول پررکھنے والا ’گلف اسٹریم‘ نظام جلد بے عمل ہوسکتا ہے

دماغی سرگرمیوں کو محفوظ کرنا:

ایلو ن مسک کے مطابق ٹو فوٹون مائیکرواسکوپی کے ذریعے نیورون کی سرگرمی عین اسی وقت دیکھی جاسکتی ہے جب وہ رونما ہوتے ہیں۔ اس طرح دماغ میں اعصاب کی بوچھاڑ اور نیورالنک کا اعصاب پر اثر دونوں کو ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس طرح انسانی دماغ کا پورا عمل سمجھ کر ہی نیورالنک کو مختلف معاملات کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

انسانی آزمائش کے ضمن میں نیورالنک جلد ہی انسانی دماغ میں منتقل کی جائے گی تاہم اس چپ کو ایف ڈی اے کی منظوری مل چکی ہے۔ سب سے پہلے یہ چپ ایسے مریضوں میں نصب کی جائے گی جو حرام مغز کی چوٹ کے شکار ہوکر کسی نہ کسی عارضے کے شکار ہیں۔ لیکن ایلون مسک چاہتے ہیں کہ نیورالنک فالج کے شکار افراد کو ان کے جسم پر مکمل کنٹرول لوٹا سکیں اور یہی ان کی حتمی منزل بھی ہے۔

دماغی چپ کا مستقبل

سائنس کے طالبعلم کی حیثیت سے نیورالنک کے ابتدائی نتائج نہایت شاندار اور حوصلہ افزا ہیں۔ تاہم اگلے مرحلے میں شاید یہ انسانی یادداشت بھی لوٹا سکیں یا کسی طرح انسان کو مزید ذہین اور فطین بھی بناسکے گی۔ لیکن اس ضمن میں انسانوں کی اولین آزمائش بہت ضروری ہے جو جلد شروع ہونے والی ہے۔

Similar Posts

Leave a Reply