ایک مرتبہ حضرت بو علی قلندر پر شدید جزب و سکر کا جذبہ طاری ہو گیا جس کی بنا پر شریعت کے بہت سے اعمال کی پابندی میں کمی آ گئی حتی کہ نماز ترک ہو گئی. لوگوں نے اس دور کے بہت بڑے مفتی سے اس معاملے میں بات چیت کی کہ حضرت بو علی قلندر بزرگ صفت انسان ہیں اس لئے ان کا نماز ترک کر دینا اچھا نہیں لہذا آپ انھیں نماز کی ترغیب دیں تاکہ بزرگی اور ولایت پر آنچ نہ آئے. اس حقیقت کو مدِنظر رکھتے ہوئے مفتی ضیاء الدین سنامی حضرت بو علی قلندر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے سوال کیا کہ آپ نے اپنی یہ کیا حالت بنا رکھی ہے. حضرت بو علی قلندر نے یہ فقرہ دہرایا کہ بےعیب ذات اللہ رب العزت کی ہے .
مفتی نے کہا جو کچھ بھی ہو ہر حال میں نماز کی ادائیگی لازم ہے . اس سے پہلو تہی کرنے کی بالکل بھی اجازت نہیں. حضرت بو علی قلندر نے جواب دیا کہ مفتی صاحب آپ اپنا کام کیجیے مجھے نماز معاف ہو چکی ہے. یہ سن کر مفتی کو بہت غصہ آیا اور وہ بولا کہ تم بہت عجیب آدمی ہو، نماز رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معاف نہیں تھی تو تمہیں کیسے معاف ہو گئی؟.. حضرت بو علی قلندر نے جواب دیا کہ تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دے میں مست الست ہوں اور دکھاوے کی نماز ادا کرنے کا مجھے بالکل شوق نہیں مگر مفتی بضد رہا کہ تمہیں نماز پڑھنی ہو گی. یہ باتیں سن کر حضرت بو علی قلندر کو جوش اور ہوش آ گیا ، فرمایا کہ مفتی رسی سے میری کمر باندھ دو اگر میری کمر بندھی رہی تو میں تیرے کلموں کی تعمیل کروں گا اور اگر میری کمر آزاد ہو گئی تو میرا پیچھا چھوڑ دینا کیونکہ میں آزاد آدمی ہوں ،مجھے اپنی پابندیوں میں مت گھسیٹو. اب مفتی ضیاء الدین نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی کمر رسی سے مضبوطی کے ساتھ باندھ دی مگر یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ رسی کمر سے دور جا گری اور حضرت بو علی قلندر بدستور آزاد رہے. مفتی بہت شرمندہ ہوئے. اس پر حضرت بو علی قلندر خاص لہجے میں بولے ، بابا میں عاشق ہوں اور عشق میں مبتلا ہوں ، تو مجھ سے کس نماز کے پڑھنے کی بات کر رہا ہے اگر تو بضد ہے تو میں تیرے ساتھ نماز ادا کرنے کے لئے تیار ہوں، نیت باندھو فرض نماز کی. مفتی صاحب کی خوشی دیدنی تھی کہ انھوں نے کامیابی حاصل کر لی تھی. اب مفتی صاحب امام بنے اور بو علی قلندر مقتدی. جب نماز شروع ہوئی تو حضرت بو علی قلندر پر استغراق کا عالم شروع ہو گیا.مفتی صاحب نماز پڑھا بھی چکے مگر حضرت بو علی قلندر جوں کے توں کھڑے رہے. اب مفتی صاحب نے پوچھا کہ بو علی قلندر نماز ختم ہو چکی ہے جبکہ تم ابھی تک نیت باندھے کھڑے ہو. حضرت بو علی قلندر نے جواب میں ایک شعر پڑھا جس کا مطلب حاضرین کی سمجھ میں نہ آیا. انھوں نے حضرت سے سوال کیا کہ حضرت بو علی قلندر ہمیں تفصیل سے بات بتائیں کہ آپ نماز کو نیت سے آگے کیوں نہیں لے سکے. حضرت بو علی قلندر نے فرمایا کہ مفتی کی گھوڑی نے بچہ دیا اور جہاں مفتی کے گھر گھوڑی اور بچہ موجود ہیں وہاں گندم رکھنے والی کنواں نما جگہ بنی ہوئی ہے لہذا ساری نماز میں مفتی کے دل و دماغ پر اس فکر کا ڈیرا جما رہا کہ کہیں گھوڑی کا بچہ گندم والے کنویں میں نہ گر جائے. میں ایسی نماز کا قائل نہیں ہوں ، میں اپنے ہواس سے بیگانہ نہیں ہوں اور ایک غلام کی طرح عشقِ الہی میں غرق ہوں ، خاموش رہتا ہوں کیونکہ غلام بولا نہیں کرتے.حضرت بو علی قلندر کی باتیں سن کر مفتی صاحب بہت شرمندہ ہوئے اور وہاں سے چلے گئے. اس شرمندگی کے انتقام کے طور پر مفتی ضیاء الدین نے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر حضرت بو علی قلندر کے ترکِ صلوۃ پر ایک محضر نامہ تیار کیا تاکہ حضرت بو علی قلندر کو نماز چھوڑنے کے الزام میں سزا مل سکے. محضر نامہ میں یہ بات تحریر کی گئی کہ ” شرف الدین عُرف بو علی قلندر عالم فاضل شخص ہے اور دہلی میں 40 سال تک وعظ و نصیحت ، درس و تدریس اور علمی مشاغل میں مصروف رہا ہے مگر اپنے وطن پانی پت میں آ کر علومِ ظاہری سے دور ہو کر عالموں اور فاضلوں سے متنفر ہو گیا ہے.متاعِ شریعت سے تہی دست ہو چکا ہے لہذا سزا کا حقدار ہے ” .محضر نامہ پر مفتی ضیاء الدین کے علاوہ دیگر مُفتیانِ متین کے بھی دستخط تھے. جب یہ محضر نامہ خواجہ علی انصاری کے پاس آخری تصدیق کے لئے پہنچا تو انھوں نے محضر نامہ پھاڑ دیا. یہ دیکھ مفتی ضیاء الدین نے غصہ میں آ کر خواجہ علی انصاری پر دعوی دائر کیا. جب عدالت میں خواجہ علی انصاری پیش ہوئے تو محضر نامہ پھاڑنے کے متعلق پوچھا گیا. خواجہ علی انصاری نے قرآن مجید کی ایک آیت پڑھی جسکا ترجمہ یہ تھا ” مت جاؤ نماز کے قریب نشہ کی حالت میں ” اور فرمایا جب حضرت بو علی قلندر اپنے ہواس میں ہی نہیں تو وہ شرعی پابندیوں کے کیونکر پابند ہو سکتے ہیں اس پر مفتی ضیاء الدین سنامی کی تشفی ہو گئی اور معاملہ ختم ہو گیا.
بظاہر دیکھنے میں تو حضرت بو علی قلندر اپنی حالتِ نشہ میں مست تارکِ شریعت دکھائی دیتے ہیں لیکن باطن میں حضرت بو علی قلندر کا مقام اس واقعہ میں واضح ہے.