پھر اپنی کرائم رپورٹنگ کا دور یاد آیا۔ 1993 کی بات ہے لاہور کے ایک نواحی گاؤں، مناواں، میں ایک پولیس مقابلہ ہوا، حسب روایت سب ”مجرمان“ مارے گئے اور کسی پولیس والے کو خراش تک نہیں آئی۔ کامیاب پولیس مقابلے کے بعد ایس پی سی آ ئی اے نے (جو غالباً اب وفات پا چکے ہیں ) نے ایک پُر تکلف پریس کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں شہر کے کرائم رپورٹر ز کو بتایا گیا کہ پولیس مقابلے میں مرنے والے دو افراد پر قتل، ڈکیتی، اقدام قتل، غنڈہ گرد ی اور اغوا جیسے سنگین جرائم کے درجنوں پرچے تھے، اتفاق سے یہ دونوں رات کے تین بجے موٹر سائیکل پر کہیں سے آ رہے تھے، پولیس کو خبر ہو گئی، آنا ً فاناً وائرلیس پر پیغامات جاری ہوئے اور پھر مناواں کے قریب انہیں پولیس نے رُکنے کا حکم دیا، پولیس کو دیکھ کر موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ شروع کر دی جس کے جواب میں پولیس کوبھی مجبوراً فائر کھولنا پڑا، نتیجے میں مجرمان موقع پر ہلاک ہو گئے۔
یہ بالکل ویسی ہی کہانی تھی جیسی ہر پولیس مقابلے کے بعد گھڑی جاتی ہے، کہانی سننے کے بعد چند کرائم رپورٹرز نے ایس پی کے ساتھ ہنسی مذاق کیا، جعلی پولیس مقابلوں پر جملے بازی کا تبادلہ ہوا، دونوں طرف سے قہقہے لگائے گئے اور پھر ایس پی صاحب نے یہ کہہ کر گفتگو کا رُخ موڑ دیاکہ یہ کیک کھائیں، بڑا سپیشل ہے۔ اس دوران میں وہ پریس ریلیز پڑھ چکا تھا جو پولیس نے ہمیں دی تھی، اس میں لکھا تھا کہ موٹر سائیکل پر تین افراد سوار تھے، میں نے ایس پی سے سوال کیا کہ جناب فرض کریں کہ آپ کا موقف درست ہے کہ ان دونوں پر درجنوں مقدمات تھے اور آپ کو بروقت مخبری ہو گئی اور یوں یہ اصلی مقابلہ وقوع پذیر ہوا مگر جو تیسرا شخص اُن کے ساتھ اُس پر کسی مقدمے کی تفصیل آپ نے نہیں بتائی، مرنے کے بعد بھی آپ اُس پر کوئی مقدمہ نہیں ڈال رہے تو اُس بے گناہ کو کیوں قتل کر ڈالا؟
ایس پی کا جواب مجھے آج تک یاد ہے : ”جو شخص اُن دونوں خطرناک مجرموں کے ساتھ آ رہا تھا وہ کوئی شریف آدمی تو نہیں ہو سکتا (قہقہہ) آئیں اب چائے پئیں۔ “ اس واقعے کو چھبیس برس ہو گئے، اس دوران ترقی ہم نے یہ کی کہ مناواں سے نکل کر ساہیوال تک پہنچ گئے اور اب یہ بتانے کا تکلف بھی نہیں کرتے کہ مرنے والا شخص مجرموں کے ساتھ تھا اِس لیے شریف آدمی نہیں ہو سکتا، اب پولیس عورتوں بچوں والی گاڑی پر محض شبہ کی بنیاد پر فائر کھول دیتی ہے، بے گناہ میاں بیوی اور بچی کو دن دیہاڑے شاہراہ پر گولیوں سے بھون کر اطمینان سے بیان جاری کرتی ہے کہ اُن کے ساتھ ایک مشتبہ دہشت گرد تھا، ایسے واقعات پوری دنیا میں ہوتے ہیں اور یہ collateral damage ہو جایا کرتا ہے۔ ان سفاکانہ وضاحتوں کے بعد اس بات کی کسر رہ گئی تھی کہ واقعے کے بعد کے پولیس والوں کی جواب طلبی کی جاتی کہ تم نے بچوں کو کیوں چھوڑ دیا، وہ بھی تو دہشت گرد ہو سکتے تھے!
دہشت گردوں اور خطرنا ک مجرموں کو پکڑنے کے لیے اُن کی جاسوسی کی جاتی ہے، آج کے دور میں یہ جاسوسی سائنسی آلات کی مدد سے کی جاتی ہے، فون کے ریکارڈ کھنگال کر مجرم تک پہنچنا، جی پی ایس سسٹم سے درست مقام کی نشاندہی کرنا، گاڑیوں میں ٹریکنگ کے آلات نصب کرنا، موبائل فون استعمال کرنے والی کی لوکیشن ڈھونڈ نکالناوغیرہ وغیرہ۔ جاسوسی کا یہ جدید طریقہ کار سہل ہے، اس طریقے میں سراغرساں کو بھاگ دوڑ نہیں کرنی پڑتی، وہ اپنے دفتر میں بیٹھ کر مختلف ڈیٹا بیس کی مدد سے جگسا پزل کے ٹکڑے جوڑ کر کوئی شکل بنا لیتا ہے اور پھر اُس پر ایکشن لیا جاتا ہے۔
بے شک یہ طریقہ قابل اعتماد ہے، آسان ہے، نتیجہ خیز ہے مگر بہرحال اس میں غلطی کی گنجائش ہے۔ امریکی ڈرون حملوں نے ایسی کئی غلطیاں کیں، ایک مرتبہ امریکی ڈرون افغانستان کی کسی شادی کی تقریب میں داغ دیا گیا جس پر بعد میں صدر اوباما کو معافی مانگنی پڑی۔ اگر امریکی ٹیکنالوجی میں غلطی ہو سکتی ہے تو ہماری ٹیکنالوجی تو اُن سے بہر حال کم ہے، اس میں غلطی کا احتمال کہیں زیادہ ہے جبکہ ہم اُس پر اندھا اعتقاد کرکے اپنے سب انسپکٹر کو حکم دے دیتے ہیں کہ فلاں ٹول پلازے پر فلاں نمبر گاڑی میں دہشت گرد آ رہے، بچنے نا پائیں۔
ایسے حکم کے بعد وہی ہوتا ہے جو ساہیوال میں ہوا۔ روایتی جاسوسی میں سراغرساں مجرموں کے گروہ میں شامل ہو جایا کرتے تھے اور پھر وہ اُن کا حصہ بن کر پکی خبر دیا کرتے تھے کیونکہ وہ مجرموں کی فیصلہ سازی میں بنفس نفیس شامل ہوتے تھے۔ اچھے وقتوں میں یہ پولیس کی سپیشل برانچ کیا کرتی تھی، یہ کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آئی جی کے پاس کروڑ دو کروڑ خرچ کرنے کا اختیار ہو جس کا حساب اسے نہ دینا ہو مگریہ اب ممکن نہیں رہا، اب کوئی دس روپے خرچ کرنے کے لیے بھی تیا ر نہیں۔ نتیجہ ساہیوال۔
دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ لڑنے کے باوجود ابھی تک ہمارے جوانوں بلکہ افسروں کی تربیت اُس پیشہ وارانہ انداز میں نہیں ہو سکی جس میں اُنہیں یہ سکھایا جائے کہ اگر وہ کسی مشتبہ دہشت گرد کو شہری علاقے، شاہراہ یا سویلین آبادی میں روک لیں تو اسے کس طریقے سے دوسروں سے الگ کرکے غیر مسلح کیا جائے۔ ہمیں ایک ہی طریقہ سکھایا گیا ہے کہ اگر کوئی پولیس کے کہنے پر نہیں رکتا تو ثابت ہوا کہ مجرم ہے سیدھی گولی چلا دو۔ نتیجہ ساہیوال۔
اسی سے جُڑا ایک اور بڑا مسئلہ بنیادی انسانی حقوق سے لا علمی ہے، آبادی کی اکثریت کو علم ہی نہیں کہ اُن کے حقوق کیا ہیں، آئین میں اُن کی ضمانت کیسے دی گئی ہے، اِن حقوق کی سلبی کی صورت میں داد رسی کے کیا ذرائع میسر ہیں، اور کیا داد رسی ہو بھی پائے گی یا نہیں! ہم نے ایک بات عوام کو رٹا دی ہے کہ ادارے مضبوط ہونے چاہئیں، بہت اچھی بات ہے، بالکل ہونے چاہئیں مگر اُس کے نتیجے میں عوام طاقتور ہونے چاہئیں، پوری دنیا میں ریاست کا بہترین تصور یہ ہے کہ وہ فرد کے معاملے میں کم از کم دخل اندازی کرے، فرد کی آزاد ی ہر شے پر مقدم ہے، اپنے ہاں الٹا ہی تصور ہے یہاں ریاست فرد کی آزادی سلب کرتی ہے اور فرد کے پاس داد رسی کے لیے کوئی راستہ بھی نہیں بچتا، آئین میں اِس کے لئے شق 184 ( 3 ) دی گئی تھی جس کا مقصد شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنانا تھا، یعنی اگر کسی شہری کے لیے بنیادی انسانی حقوق کے تمام راستے مسدود ہو جائیں تو اس کی 184 ( 3 ) میں داد رسی کر دی جائے مگر ہم نے الٹا اِس شق کو سزا دینے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔
ہمیں امریکہ کی مثالیں دینے کا بہت شوق ہے، وہاں سنگین جرائم میں ملوث ملزم کو بھی جب پکڑا جاتا ہے تو اسے موقع پر آئین میں دیے گئے حقوق پڑھ کر سنائے جاتے ہیں اور بتایا جاتاہے کہ تمہارے پاس خاموش رہنے کا بھی حق ہے اور اگر تم وکیل نہیں کر سکتے تو ریاست اپنے خرچے پر تمہیں وکیل دے گی اور یہ صرف کہا نہیں جاتا بلکہ عملاًکیا بھی جاتا ہے۔ اِدھر ہم شک کی بنیاد پر بندہ مارتے ہیں اور ساتھ میں بے گناہ بچی کو اُس کے ماں باپ سمیت گولیوں سے بھون دیتے ہیں۔ بھاڑ میں گئے انسانی حقوق۔
بنیادی انسانی حقوق کی پامالی دراصل آئین سے رو گردانی کے نتیجے میں ہوتی ہے، ہم لوگ سانحہ ساہیوال پر ماتم کر رہے ہیں جبکہ آئین کی پامالی پر خاموش رہتے ہیں، اس خاموشی کا نتیجہ ہمارے بنیادی حقوق کے سلب ہونے کی شکل میں برآمد ہوتا ہے، اور جہاں بنیادی انسانی حقوق کا کوئی تصور نہ ہو وہاں ساہیوال جیسے واقعات ہونا اچھنبے کی بات نہیں۔ لہذا سانحہ ساہیوال ماتم کرنے کے لیے پہلا واقعہ ہے اور نہ آخری۔