پشاور: حکومت کو سزائے موت کے لیے پھانسی سے کم تکلیف دہ سزا متعارف کرانے کے احکامات جاری کرنے کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں دائر پٹیشن پر ہائی کورٹ بینچ نے اسلامی نظریاتی کونسل اور اٹارنی جنرل آف پاکستان سے مؤقف طلب کرلیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس لعل جان خٹک اور جسٹس عبدالشکور نے پٹیشن کے خارج ہوجانے تک درخواست گزار اور سزائے موت کے قیدی جان بہادر کی پھانسی پر حکم امتناع کی میعاد میں بھی توسیع کردی۔
پشاور ہائی کورٹ بینچ نے اسلامی نظریاتی کونسل سے اسلامی احکامات کی روشنی میں درخواست گزار کی استدعا پر ان کا نظریہ طلب کیا جبکہ اٹارنی جنرل کو ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ درخواست گزار کے اٹھائے گئے نکات پر قانونی پوزیشن کی وضاحت کریں۔
واضح رہے کہ ہری پور مرکزی جیل میں موجود قیدی نے ہائی کورٹ سے درخواست کی تھی کہ سزائے موت کے طریقے پھانسی کو غیراسلامی اور غیر آئینی قرار دیا جائے کیونکہ یہ تکلیف دہ اور انسانی اقدار کے خلاف ہے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 368 کے مطابق ‘جب کسی فرد کو موت کی سزا سنائی جائے تو اسے اس وقت تک گردن سے لٹکا کر رکھا جائے جب تک وہ مردہ نہ ہوجائے’۔
درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ پھانسی کو ظالمانہ، غیراسلامی اور غیر انسانی قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی کے احکامات جاری کرے۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ عدالت انتظامیہ کو حکم دے کہ وہ سزائے موت کے لیے کم تکلیف دہ طریقے کو اختیار کریں۔
خیال رہے کہ اس درخواست میں سیکریٹری داخلہ، سپرنٹنڈنٹ ہری پور جیل، سیکریٹری قانون، سیکریٹری اسلامی نظریاتی کونسل اور مردان کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کو فریق نامزد کیا گیا۔
صوبائی حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل قیصر علی شاہ نے عدالت سے درخواست کی کہ انہیں کیس کی تیاری کے لیے کچھ وقت فراہم کیا جائے۔
دوسری جانب پٹیشنر کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل محمد خورشید خان کا کہنا تھا کہ ان کے مؤکل کو اکتوبر 1993 میں مردان کے تخت بھائی پولیس اسٹیشن میں درج ہونے والے قتل کیس سے تعلق میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ایڈووکیٹ محمد خورشید خان نے کہا کہ درخواست گزار کو اپریل 2000 میں تخت بھائی کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج نے موت کی سزا سنائی جسے پہلے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا جبکہ معافی کی درخواستیں مسترد ہوتی رہیں۔
خورشید خان نے عدالت سے درخواست گزار کی پھانسی کے خلاف جاری ہونے والے حکم امتناع میں توسیع کی درخواست بھی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ سزائے موت کے 9 طریقہ کار ہیں جن میں فائرنگ اسکواڈ، گیس چیمبر، الیکٹرک چیئر، لٹکانا، سر میں گولی مارنا، موت کا باعث بننے والا انجیکشن لگانا، سر قلم کرنا، سنگساری، اور اونچائی سے دھکا دینا شامل ہیں، ماضی میں امریکا کی تمام ریاستوں میں لٹکا کر سزائے موت دی جاتی تھی تاہم اس کے بعد الیکٹرک چیئر کا استعمال شروع کردیا گیا کیونکہ یہ کم تکلیف دہ طریقہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 1921 میں اسٹیٹ آف نیواڈا نے سزائے موت کے لیے گیس چیمبر متعارف کرائے۔
خورشید خان نے بینچ کو بتایا کہ 30 سے زائد امریکی ریاستوں میں مجرموں کو مہلک انجیکشن لگایا جاتا ہے جو دیگر سزائے موت کے طریقوں سے کم تکلیف دہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘سزائے موت کے قیدی کو تین انجیکشن لگائے جاتے ہیں، پہلے انجیکشن سے وہ بےہوش ہوجاتا ہے، دوسرے سے اس کا جسم مفلوج ہوجاتا ہے جبکہ تیسرے سے اس کی حرکت قلب رک جاتی ہے’۔
درخواست گزار کے وکیل کا دعویٰ تھا کہ دنیا کے 28 ممالک میں مجرموں کو فائرنگ اسکواڈ جبکہ 22 ممالک میں سر میں گولی مار کر سزائے موت دی جاتی ہے۔