انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے پانامہ پیپرز سے تفصیلی ڈیٹا کی مزید تفصیل جاری کی ہے۔ پانامہ لیکس کی دوسری قسط جاری کردی گئی ہے جس میں دو لاکھ سے زائد خفیہ آف شور کمپنیوں کا انکشاف کیا گیا ہے۔ پانامہ لاءفرم موساک فونسیکا کی جانب سے بے نامی شیل فرمز میں 3 لاکھ 60 ہزار افراد اور کمپنیوں کے نام جاری کئے گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستانی سیاستدانوں اور شہریوں کے آف شور کمپنیوں کے اثاثے 50 ارب ڈالر ہیں۔ 259 آف شور کمپنیوں کے 400 کے قریب پاکستانی مالکان ہیں۔ کراچی کے 153 اور لاہور کے 108 شہریوں نے آف شور کمپنیاں بنائیں۔ اسلام آباد پشاور اور گجرات کے شہری بھی آف شور کمپنیوں کے مالک نکلے ہیں۔ پاکستانیوں میں سب سے زیادہ آف شور کمپنیاں سیف اللہ خاندان کی ہیں۔ سیف اللہ خاندان کے 7 افراد 30 سے زائد آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔ آف شور مالکوں میں پہلا نمبر جاوید سیف اللہ کا ہے جو 17 کمپنیوں کے مالک ہیں۔ عمران خان کے دوست زلفی بخاری کی بہنوں کی 6 آف شور کمپنیاں ہیں، آف شور کمپنیوں کے 56 مالکان کا تعلق کراچی کے علاقے ڈیفنس، 35 کا تعلق کلفٹن سے ہے جبکہ ، گلبرگ لاہور کے 19 ای ڈی ایچ اے کے 18رہائشی بھی ان کمپنیوں کے مالک ہیں۔ 1988ءسے 2015ءتک 250 سے زائد آف شور کمپنیاں اور 2007ءمیں 27 کمپنیاں برٹش ورجن آئی لینڈ میں پاکستانیوں کی 153 کمپنیاں اور پانامہ میں 41 کمپنیاں، 1988ءسے 2015ءتک مئی کے مہینوں میں 31 کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں۔ سب سے پرانی کمپنی 1988ءمیں میاں ضیاءالدین طور کے نام سے سب سے نئی کمپنی 2015ءمیں ماجد صدیقی داﺅد کے نام رجسٹرڈ ہوئی۔ وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نوازشریف، بیٹی مریم نواز، سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو، پی پی کے سنیٹر رحمان ملک، آصف زرداری کے دوست عبدالستار ڈیرو، پی ٹی آئی کے رہنما علیم خان، عمران خان کے دوست زلفی بخاری، سابق جج اور اٹارنی جنرل ملک قیوم، سابق اٹارنی جنرل مخدوم علی خان، سابق وزیر اور پی پی رہنما انور سیف اللہ خان، سنیٹر عثمان سیف اللہ، جاوید پاشا رہنما پی پی، زرداری اور الطاف حسین کے دوست عرفان اقبال پوری، حسن علی جعفری، ہوٹلوں کی چین کے مالک صدرالدین ہاشوانی، سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی، سرمایہ کار حسین داﺅد، عبدالستار ڈیرو، سابق وزیر صحت نصیر خان کے بیٹے جبران خان، جسٹس فرخ خان، مہرین اکبر، شوکت احمد، سیٹھ عابد کے بیٹے ساجد محمود اور فراز ولیانی کے نام شامل ہیں۔ آئی سی آئی جے کے تحت دستاویزات پر 80 ممالک کے 107 اداروں نے کام کیا۔ 350 سے زائد صحافیوں نے تحقیق کی۔ پانامہ پیپرز رپورٹ کے مطابق نیوزی لینڈ امرا کے لئے اپنی دولت چھپانے کی محفوظ جنت بن گیا ہے۔ لاطینی امریکہ ممالک کے دولت مند کمپنیوں اور ٹرسٹ کے ذریعے اپنے فنڈز دنیا بھر میں ان مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ پانامہ لیکس کے حوالے 61ہزار دستاویزات صرف نیوزی لینڈ سے متعلقہ ہیں۔ پانامہ لیکس کی دوسری کے بعد تیسری قسط بھی آئے گی۔ دوسری قسط میں کئے گئے مزید انکشافات کے مطابق بے نظیر کے کزن طارق اسلام، سابق وزیر صحت نصیر خان کے بیٹے‘ پورٹ قاسم اتھارٹی کے سابق ایم ڈی عبدالستار ڈیرو‘ پی ٹی آئی کے علیم خان‘ شرمین عبید کی والدہ کا نام بھی شامل ہے۔ ولیانی خاندان کا تعلق چار کمپنیوں سے نکلا ہے۔ کراچی چیمبر کے سابق صدر شوکت احمد شیل کمپنی کے مالک نکلے ہیں۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے دور میں وزیر صحت نصیر خان کے خاندان کے ارکان کی ایک آف شور کمپنی‘ ایٹ ووڈ انویسٹمنٹ لمیٹڈ شامل ہے۔ ان کے بیٹے محمد جبران اور بھائی ظفر اللہ خان کی نشاندہی شیئر ہولڈرز کی حیثیت سے ہوئی ہے۔ ساجد محمود موس گرین لمیٹڈ کے مالک ہیں۔ یہ آف شور کمپنی برٹش ورجن آئی لینڈ میں گزشتہ برس ہی رجسٹر ہوئی تھی۔ اس کے دیگر شیئر ہولڈرز میں اکبر محمود‘ اعجاز محمود اور بشریٰ اعجاز ہیں۔ اس خاندان کی 30کمپنیاں ہیں جو عابد گروپ کے تحت کام کرتی ہیں۔ این آر او سے فائدہ اٹھانے والے پورٹ قاسم کے سابق ایم ڈی عبدالستار ڈیرو کی دو آف شور کمپنیاں ہیں۔ وہ زرداری خاندان کے انتہائی قریبی شخص تصور ہوتے ہیں اور وہ متحدہ عرب امارات میں کاروبار کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ان آف شور کمپنیوں میں شریک مالک زاہدہ ڈیرو‘ فہد ستار ڈیرو اور فواد ستار ڈیرو شامل ہیں۔ کراچی چیمبر کے سابق صدر شوکت احمد کی گلوبل لنک پراپرٹیز انکارپوریٹڈ سے شلز میں رجسٹرڈ ہیں۔ دوہری شہریت کے حامل عزت مجید کی ایک کمپنی ہے۔ وہ سچل اسٹوڈیو اکسٹرا کے بانی ہیں۔ سابق ایڈمرل مظفر حسین کے بیٹے اظفر حسن برٹش ورجن آئی لینڈ میں قائم کمپنی نبیلہ میٹرکس لمیٹڈ کے شیئر ہولڈرز میں سے ہیں۔ غوث اکبر کی اہلیہ مہرین اکبر کا نام چار کمپنیوں میں شیئر ہولڈر کی حیثیت سے سامنے آیا ہے۔ ان کمپنیوں کی املاک برطانیہ میں ہیں۔ غوث اکبر نے بتایا کہ ان کمپنیوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ان کے سسرالی یہ کمپنیاں چلاتے ہیں۔ مہرین نے بھی ان کمپنیوں سے خود کو لاتعلق قرار دیا۔ ویلیانی خاندان کا تعلق بھی چار کمپنیوں سے نکلا ہے جن میں الیگزر سکیورٹیز کے سی ای او فواز ولیانی‘ ان کی بہن زہرا ویلیانی اور ان کی والدہ ثمینہ ولیانی شامل ہیں۔ زہرا نے اس کی تردید کی ہے۔ اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر آف شور کمپنی غیرقانونی طور پر قائم کی گئی ہو۔ پانامہ لا فرم نے لیکس پر چینی بنکوں سے معذرت کر لی ہے۔ ٹیکس پناہ گاہوں کی آڑ میں برطانیہ کے بعض دھوکے باز غضب کی چالیں چل رہے ہیں۔ برطانوی میڈیا کے مطابق ایک ہزار سے زائد افراد سے 70 ملین پاﺅنڈ لوٹ لئے گئے۔ لٹنے والے متاثرین میں زیادہ تر عمر رسیدہ ہیں۔ دھوکے بازوں نے ٹیکس پناہ گاہوں میں آف شور شیل کمپنیاں بنا کر لوگوں سے رقم لوٹی۔ پانامہ پیپرز کے مطابق ان میں 2 شیل کمپنیاں موزیک مونسیکا کے تحت رجسٹرڈ تھیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق مریم نواز نے پیرو اور سنگا پور کے پتے لکھوائے ملک کا تعلق سعودی عرب لکھوایا مریم نواز کی زیر ملکیت نیسکول اور کیلسنکمپنیوں کے نام شامل ہیں۔ فہرست میں پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی کا نام شامل ہے جو آف شور کمپنی کے مالک نکلے ۔ ثمینہ وارثی، جہانگیر خان، ندیم اقبال سہگل شامل ہیں۔ پانامہ کے صدر جان کار لوس ویریلا نے کہا ہے کہ پانامہ پیپرز عالمی طاقتوں کے درمیان ایک لڑائی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اب تک مجموعی طور پر11.5ملین دستاویزات تک رسائی ہوئی ہے۔ پانامہ لیکس میں ہائی پروفائل افراد سیاسی رہنماﺅں، سلیبرٹیز کچھ جرائم پیشہ افراد ،فلمساز، اور فٹ بالرز بھی شامل ہیں۔ عالمی رہنماﺅں میں روسی صدر پیوٹن کے قریبی حلقوں، ارجنٹائن کے صدر موریکو میکری کا نام بھی شامل ہے۔ پاکستانی شہریوں نے بہا ماس میں آف شور کمپنیاں بنائیں یہ کمپنیاں بنانے والوں میں محمد فاروق نسیم، سلیم محی الدین، سعد علی، زاہد رفیق، جاوید احمد، شمائلہ ناصر، شمس ناصر پیرزادہ، مریم داﺅد، فرح داﺅد، رومانہ شیر زمان لودھی، حنیف داﺅد، مریم زبیر، ہمایوں ایس خان، عقیلہ ممتاز، شیخ مقبول، محمد علی، عمران علی، علی حسین علی، نوید ملک، خالد حسین، ارم حسیب، جہانگیر ایس، شیریں شاہد، شاہد عبد اللہ، میاں محمد اسلم، ندیم احمد، وقار صدیقی، ماہم حبیب، ارم حبیب، صدف، مہرین ، مدثر پراچہ، فاطمہ وقاص پراچہ، سارہ عدنان پراچہ، عابدہ پراچہ، شاہ زیب اختر، عمران شوکت احمد، صبا عمران، محمد شعیب، احسن شفیق، عامر شفیق، شاہد شفیق، شہزاد شفیق، غلام حیدر، عارف عزیز، یوسف عبداللہ، اسامہ یوسف، شاہد راشد، نرجس راشد، زاہد راشد سواتی، یوسف جان محمد، عبداللطیف ،جاوید لاکھانی، آفتاب لاکھانی، سلمہ یوسف، رضیہ اجمل، محمد یوسف، آصف مرزا، اسد محمد علی، جے ٹی خان، حبیب احمد، سید توقیر سبزواری، مہر اعظم، جاوید احمد آغا، عبدالقدیرخواجہ، محبوب احمد ، محمد عمر اقبال، محمد اقبال، آصف ریاض ، زاہد رزاق لاکھانی، عبدالصمد داﺅد، یونس زکریا تابانی، رخسانہ چودھری تابانی، امتیاز مجید، روبینہ ریاض، جہانگیر سیف اللہ، عابدہ ذوالفقار، ارشاد علی، ڈاکٹر طاہر طوسی، راجہ اللہ داد، گوہر سلیم، میاں غلام عاصم، شبیر کھوکھر، محمد احمد سکھیرا، حسین سرفراز، عمران نواز، جاوید احمد خان، شاہد عزیز ملک، خاور محمود، محمد فاروق، عنبرین عبداللہ، علی عبداللہ، عامر عبداللہ، ریاض حیدر علی، ایڈمرل (ر) مظفر حسین کا بیٹا، ایاز محمود، موسیٰ خان، فضل خان، فود ستار ڈیرو، فہد ستار ڈیرو، زاہدہ ڈیرو، جاوید پاشا، سعد علی، شیریں علی پاریکھ، اعظم محمد، حسین حاجی، نور محمد، وسیم گلزار، راشد انور، سلمان ٹبہ، صوفیہ اعظم سلطان، طلعت رشید، صومیہ انوراور جاوید شکورکے نام شامل ہیں۔
لندن(صباح نیوز) بین الاقوامی ادارے ٹیکس جسٹس نیٹ ورک کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دنیا بھر سے 12 کھرب ڈالر سے زائد کا سرمایہ آف شور کمپنیوں میں منتقل کیا گیا ہے، بین الاقوامی ادارے ٹیکس جسٹس نے 18 ماہ کی طویل تحقیقات کے بعد یہ انکشاف کیا ہے کہ 2014ءکے اختتام تک دنیا بھر سے 12 کھرب ڈالرز سے زائد ٹیکس بچایا گیا ہے۔ سرمایہ آف شور کمپنیوں میں منتقل کیا گیا۔ زیادہ تر سرمایہ ابھرتی معیشت والے ممالک سے منتقل کیا گیا ان میں روس اور چین بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صرف روس سے ایک کھرب ڈالر سے زائد سرمایہ آف شور کمپنیوں میں منتقل کیا گیا جبکہ چینی شہریوں نے ایک کھرب ڈالر سے زائد کا سرمایہ ٹیکس کی پناہ گاہ ممالک میں منتقل کیا اس کے علاوہ ملائیشیا، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا سے بھی ٹیکس سے بچنے کیلئے سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا گیا۔ برطانوی اخبار دی گارڈین میں شائع رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تیل کی دولت سے مالا مال ممالک نائیجریا اور انگولا سے بھی بڑی تعداد میں سرمایہ آف شور ٹیکس پناہ گاہ والے ممالک میں منتقل ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں عوامی دباﺅ کے باوجود ٹیکس کی پناہ گاہ کی سہولت فراہم کرنے والی کمپنیوں کی تعداد میںاضافہ ہو رہا ہے۔
عالمی ادارہ